Saturday, March 28, 2009

بشیر مرزا اور آزر زوبی

دو مصور: بشیر مرزا اور آزر زوبی

محمد حمید شاہد


شخصیت نگاری‘ یاد نگاری حتی کہ خاکہ نگاری میں جو روش چل نکلی ہے اس میں غنیمت جانیئے کہ جس پر طبع آزمائی ہو رہی ہوتی ہے اُس کا اصل خال وخدبھی سامنے آجائےں ۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ شخصیت چاہے بھلے سے شیر جیسی ہو‘ قاری کو آخر میں مصنف یوںنظر آنے لگتا ہے جیسے اس نے مردہ شیر کی لاش پر پاﺅں دھرکے اور مونچھوں کو تاﺅدیتے ہوئے تصویر کھینچوالی ہو۔ ایسی تصویروں کی کیا وقعت ہوتی ہے کون نہیں جانتا۔ شفیع عقیل ‘بشیر مرزا اور آزر زوبی نے حوالے سے اپنی یادداشتیں لکھتے ہوئے اس غیر صحت مند رویئے سے بچ نکلے ہیں اور اس کا نتیجہ یوں خوش گوار ہو گیا ہے کہ دونوں مصور اور خود مصنف بھی زندہ بچ گئے ہیں ۔ بشیر مرزا اور آزر ذوبی اپنی زندگی کے بھر پور پن کی تفاصیل کے ساتھ اور شفیع عقیل اپنے سادہ رواں اور بھید بھرے اسلوب کی وجہ سے ۔ ہم مصوروں کی زندگیوں کے بارے میں بھی قیاس ان کی بنائی ہوئی تصویروں سے لگانے کے عادی ہو جاتے ہیں یا پھر ان تحریروں سے انہیں جاننے کو مجبور ہوتے ہیں جو قلم کے ماہرین اپنی مہارت کے زور پر لکھ لیا کرتے ہیں۔ ایسی تحریریں پڑھنے میں بھلی زور لگتی ہیں مگر لکھنے والا چوں کہ ان کے فن کی جمالیاتی سطح پر تحسین کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا لہذا اپنے قاری کواس باب میں کچھ دئےے بنا تمام ہو جاتی ہیں۔ ”دو مصور“ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہ صرف دو مصوروں کی زندگی کی فن کارانہ تصویریں نہیں ہیں ان میں غیر محسوس انداز میں ہی سہی جا بجا ان کے کام کا فنی مطالعہ در آیا ہے جس نے اس کتاب کی وقعت دو چند کر دی ہے ۔ اپنی بات کی وضاحت آذر زوبی کے حوالے سے لکھے گئے اقتباس سے کرنا چاہوں گا ۔ آخری ایام میں آذر زوبی نے بڑے سائز کی ڈرائینگز کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا ان کی بابت شفیع عقیل لکھتے ہیں : ” یہ ڈرائینگیں یا اسکیچ بے لباس انداز کے تھے جو زوبی کا پسندیدہ موضوع تھا ۔ وہ عورت کا بے لباس جسم بنانے میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لیتا تھا.... جو نیوڈ(nude) اسکیچ یا ڈرائینگیں بنا رہا تھا اور جس طرح کی بنا رہا تھا ان میں چار پانچ کا مزید اضافہ ہوجاتا تھا ۔ نہ موضوع میں کوئی تبدیلی ہوتی تھی ‘ نہ اشکال میں کوئی فرق آتا تھا ۔ نہ اجسام کے زاویے بدلتے تھے اور نہ خطوط میں کوئی تفریط ہوتی تھی۔ ایک عورت بیٹھی ہوتی تھی یا دو ہوتی تھیں اور چہروں کے خدوخال میں وہی یکسانیت ملتی تھی ۔ اس نے یہ ڈرائینگیں سو کے لگ بھگ بنائی تھیں ....“ایک اور جگہ لکھا ہے: ” تجریدی کام کرنے سے پہلے رئیلسٹک(realistic) میں مہارت ہونا ضروری ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اناٹمی(anatomy) سیکھنا بھی ضروری ہے الٹے سیدھے برش لگا دینے سے پینٹنگ نہیں بن جاتی“ایک مقام اور یہ بھی ذوبی کے حوالے سے : ” زوبی تجریدی آرٹ کے بہت خلاف تھا اور تجریدی کام کرنے والوں کو بے نقط سناتا رہتا تھا۔ اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ خود اس کے اپنے اپنے بعض فن پارے ایسے ہیں جو تجریدی یا نیم تجریدی انداز میں بنے ہوئے ہیں ۔اس کا وہ کام جو پین ورک میں ہے ‘ اس میں بہت سے اسکیچ اور ڈرائینگیں تجریدی(abstract) ہیں ۔ خاص طور پر اس کی وہ السٹریشنز جو اس نے بعض کتابو© ں میں بنائی ہیں- مثلاً” جنم کنڈلی“ ، ”سرخ فیتہ“ اور ” موت سے پہلے“ وغیرہ میں ۔ جب وہ تازہ تازہ اٹلی سے آیا تھا تو اس نے کئی اسکریپر ڈرائینگیں (scraper drawings ) بنائی تھیں -وہ سب تجریدی انداز کی ہیں جن میں سے بیشتر کو دیکھ کر مجسمے کا تصور اُبھرتا ہے “اسی طرح کا ایک حوالہ بشیر مرزا کے بارے میں: ” ....جب بی ایم نے ایکریلک سے فن پارے تخلیق کرنا شروع کئے تو اُس کی تخلیقی صلاحیتوں میں جیسے بھونچال آگیا ۔ اس نے لگاتار فن پارے بنائے اور پوری فن کارانہ مہارت سے بنائے ۔ اس نے زندگی میں کئی انداز کا کام کیا تھا اور ہر انداز میں اپنی انفرادیت تسلیم کروائی تھی لیکن جب اس نے ایکریلک کو اپنایا تو اس میڈیم میں ہونے والی تخلیقات نے اس کے پہلے والے کام کو بھلا دیا.... بی ایم نے زندگی کے آخری دس برس کے دوران صرف ایک ہی میڈیم میں کام کیا اور یہ تھا ایکریلک۔ اس میں اس نے بعض سیریز بھی بنائیں ‘ پورٹریٹ بھی تخلیق کیے اور پورے اجسام کے فن پارے بھی بنائے ....یہ اس کا بہترین کام ہے“ آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ ایک طرف بشیر مرزا اور آذر زوبی کی ذاتی زندگیوں کے بھر پورخاکے متشکل ہوتے چلے گئے ہیں اور بالکل غیر محسوس انداز میں ان کے فن پاروں کا جائزہ بھی لے لیا گیا ہے۔ لگ بھگ ساری ہی کتاب میں یہی قرینہ ملتا ہے ۔ مصور علی امام نے شفیع عقیل نے پاکستان میں آرٹ ‘ آرٹ کی تحریکوں اور آرٹسٹوں کی بابت کام کو کتابی صورت میں لانے کا جو مشورہ دیا تھا ”دومصور“پڑھنے کے بعد اس کی اہمیت کا ندازہ بھی ہوجاتا ہے ۔ اب تو ہم بھی ان کے موئید ہو گئے ہیں ‘ واقعی”آرٹ پر شفیع عقیل نے جو کام کیا ہے - وہ اپنی جگہ کمال کاکام ہے ۔“امید کی جانی چاہیے کہ”دومصور“ کے بعد بھی ان کا اس ضمن میں کام کتابی صورت میں سامنے آتارہے گااور یوں شاید علی امام کی اس شکایت کی سنگینی اور شدت کم ہونے کی ایک صورت نکل آئے کہ ” اردو قومی زبان ہے اور اس میں ایسی کتابوں کی بہت کمی ہے “۔ دو حصوں پر مشتمل ‘تین سو بیس صفحات والی اس کتاب کی پیش کش بھی خوب ہے ۔ متن کے اندر بشیر مرزا اور آذر زوبی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریروں کے عکس ہوں یا رنگین تصاویر کی صفحات اور سرورق ہر کہیں یہ سلیقہ جھلک دے جاتا ہے ۔ مصور زندگی بھر خوب صورتی کو گرفت میں لینے کے جتن کرتے رہتے ہیں ان کے بارے میں کتابوں کو بھی اتنا ہی خوب صورت ہونا چاہیئے۔

Sunday, March 22, 2009

خواب ساتھ رہنے دو

محمد حمید شاہد
خواب ساتھ رہنے دو/ اخلاق احمد


سائیکالوجی کی ایک کتاب میں معروف ماہر ِ نفسیات آر۔ ایل۔ گریگوری R. L. Gregory نے ایک ایسے شخص کی کیس ہسٹری دی ہے جو ادھیڑ عمر کو پہنچ چکا تھا۔ نظر سے محروم ہونے کے باوجود اس نے گذشتہ زندگی بڑی کام یابی سے گزاری تھی۔ بڑا ذہین شخص تھا کہ سارے مسائل کمال خوبی سے سلجھا سکتا تھا۔ معذوری اس کے روزمرہ کے معمولات اور مشاغل میں کبھی رکاوٹ نہیں بنی۔ وہ سفید جھڑی پکڑے اکیلے گھومنے نکل جاتا۔ چلتی ٹریفک ہوتی تو بھی بہ سہولت سڑک پار کر لیتا تھا۔ آر۔ ایل۔ گریگوری نے سہولت کے لےے اس شخص کا نام ایس بی رکھ دیا تھا۔
ادھیڑ عمر ایس بی باغ میں درختوں کے پتوں کے بیچ سے گزرتی ہوا کی سرسراہٹ سنتا، پرندوں کے نغموں سے محفوظ ہوتا، فرنیچر کی مرمت کرتا، چھوٹی موٹی چیزیں بناتا اور یوں اپنی چھوٹی سی تاریک دنیا میں وسعت پیدا کےے چلا جاتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ اس کی وسیع ہوتی دنیا سکڑنے لگی۔ یہ تب ہوا جب اس کے دل میں یہ خواہش کناروں سے بھی چھِلنے لگی تھی کہ کاش وہ دیکھ سکتا۔
بات صرف کاش تک محدود رہتی تو شاید زندگی اتنی جلدی فیصلہ کن موڑ پر نہ پہنچتی۔ اس نے آگے بڑھ کر آپریشن کرانے کا فیصلہ کر لیا۔ آپریشن کام یاب رہا اسے بصارت مل گئی۔ ایس بی کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اس کے بعد آر۔ ایل۔ گریگوری نے جو کچھ بتایا وہی تو اصل کہانی ہے مگر پہلے اخلاق احمد کی کہانی، جس کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ہمارے سامنے ہے۔
میں نہیں جانتا پہلے اور دوسرے مجموعے کے بیچ کتنے لمبے عرصے کی مسافت پڑتی ہے۔ تاہم میں یہ جان گیا ہوں کہ اخلاق احمد نے بیس برس اپنے اندر کی آنکھ بند رکھی وہ یوں کہ اس کا تعلق لفظ سے ہوتے ہوئے بھی نہیں رہا کہ صحافی کو تو واقعہ لکھنا ہوتا ہے۔ واقعہ ، جیسا کہ وہ ہوتا ہے، اس نےالگ رہ کر ، اس سے پرے کھڑے ہو کر۔ اور جب کوئی بے دھیانی میں ان سارے لفظوں کو اپنے اندر اُتر نے دیتا ہے تو وہ محض صحافی نہیں رہتا کہ واقعے میں خود شامل ہو جاتا ہے یا پھر واقعہ اس میں شامل ہو جاتا ہے۔ یوں بیچ سے خبر ضائع ہو جاتی ہے جو اخبار کا پیٹ بھر سکتی ہے یا پھر دوسرے معنوں میں صحافی کا پیٹ بھر سکتی۔ بیس برس کام یابی سے اخبار کا پیٹ اور اپنا پیٹ بھرنے والا جب اس عمر کے آس پاس پہنچتا ہے جس پر پہنچ کر ایس بی نے اپنی تُند خواہش کے سامنے ہتھیار ڈال دےے تھے اور جسے خود اس نے زندگی کا وہ مرحلہ قرار دیا ہے کہ جب جوانی کو مُڑ کر دیکھنا پڑتا ہے مگر بڑھاپا ابھی دور ہوتا ہے تو چپکے چپکے بدن کے اندر رستے لفظ کہانی میں ڈھلنے کی خواہش کرتے ہیں۔ اس خواہش کو آپ ایس بی کی اس خواہش کے مماثل قرار دے سکتے ہیں جو اس نے دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لےے کی تھی۔
اس کی بھی خواہش پوری ہوئی۔ اخلاق احمد بھی کام یاب رہا مگر اس کے بعد کی کہانی دونوں کے ہاں مختلف ہو جاتی ہے۔ اخلاق احمد نے اپنا مقدر یوں الگ کر لیا کہ اس نے کہانیوں میں در آنے والے سچ کو قبول کر لیا اور انہیں کہانی کا حصہ بننے دیا۔ پھر یہی کہانیاں اس کے لےے پناہ گاہ بن گئیں۔ اذیتوں کی برستی دھوپ بارش میں دن بھر جلتے بدن کو جب ہم رات نیند کے حوالے کرتے ہیں تو خوب پناہ گاہ بن جاتے ہیں۔
اخلاق احمد کا کہنا ہے ”یہی خواب سراسر افسانے ہیں۔“
”خواب ساتھ رہنے دو“ ایسے ہی افسانوں کی کتاب ہے۔ ادھیڑ عمری کے ٰوابوں سے بنی گئی پہلی کہانی کا عنوان ”بدنصیب“ ہے جو ان دو خوش نصیبوں کی کہانی ہے جو زندگی کو نئی معنویت دینے میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔ مہر النساء اور جما ل حسین کی یہ کہانی ائر پورٹ پر پہلے سے طے شدہ ”اتفاقیہ“ ملاقات سے شروع ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ ہم سب کو بھی، کہ جو ادھیڑ عمری کا عذاب بھوگ رہے ہوتے ہیں، اپنے اندر لپٹتی اور ادھیڑتی چلی جاتی ہے۔ کہانی کے آغاز میں محبت کی دو تکونوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ دو مرد اور ایک عورت یا پھر دو عورتیں اور ایک مرد۔ جمال حسین ایک ایسا مرد ہے جس کے لےے شاید مہرالنساءایسی عورت ہے جو شاید جمال ہی سے مکمل ہو سکتی تھی مگر دونوں مقدر کی ہونی شدنی کے ساتھ بندھے ہیں۔ جمال ایک ایسی عورت کے ساتھ تیرہ برس سے رہ رہا ہے جس کی کہانی سن کر مہر النساءاگرچہ یہ کہتی ہے کہ ”اس میں بیوی کا کیا قصور“ اور ”کیا احمقانہ بات ہے“ مگر اندر سے یقین کر لیتی ہے کہ جمال کا لمحہ لمحہ اذیت میں گزر رہا ہے اور خود مہرالنساءایسے شخص کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے جو محض بارہ سو روپے کا ساسسٹنٹ اکاو¿نٹنٹ تھا جس میں سے چھ سو روپے کا دودھ بچہ پی جاتا تھا اور پھر بھی توتا رہتا تھا۔ اس کی بیوی اور اس کی اپنی اولاد اس کے لےے فقط مالی بوجھ تھے وہ ان سے لڑتا جھگڑتا رہتا تھا مگر وہی شخص اس وقت مہربان ہو جاتا ہے جب مہر النساءکار آمد کموڈیٹی بن جاتی ہے کہ اب اس کی گریڈ سترہ کی تنخواہ اور سہولیات اس قدر ہیں کہ وہ اپنے دفتر سے بلا جواز چھٹی کر سکتا ہے۔ دیر تک سو سکتا ہے اب وہ بگڑتا نہیں، محبت کا اظہار کرتا ہے اور مہر النساءکا چڑچڑاپن برداشت کر نے لگتا ہے۔ حتّٰی کہ مہر النساءاس کو منصب سے گرادیتی ہے۔ کہانی ان دو تکونوں سے زندگی کی ایک نئی ڈائمنشن پر تیسری تکون کا انکشاف کرتی ہے تو ہم ادھیڑ عمر والوں کے ادھڑے چاک بھی سلنے لگتے ہیں۔ زندگی کی یہ تیسری ٹرائی اینگل وہ ہے جس کے ایک کونے پر جمال ہے دوسرے پر مہر النساءاور تیسرے پر دونوں کی محبت ۔
اخلاق احمد نے بڑی مہارت سے اس کہانی کو نفسیاتی سطح پر بنا ہے کچھ اسی قسم کے فکری مواد مگر قدرے مختلف بیانےے کی ایک کہانی ”گٹکا“ بھی ہے۔ یہ گٹکا کہانی کا مرکزی کردار گل ریز ہے۔ چھوٹا سا، موٹا سا اور گنجا سا۔ جس کی بیوی خوب صورت مہذب اور سوشل ہے مگر خود گل ریز ملٹی نیشنل کلچر کا حصہ ہوتے اور اس قدر خوب صورت بیوی کا حصہ ہوتے ہوئے بھی روشن آرا بیگم اور راجندر سنگھ بیدی پر مرتا ہے۔ اسی گل ریز نے گذشتہ ڈیڑھ دو سال کا عرصہ ایک ایسی عورت کی محبت میں گزارا ہے جو اسی کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔ یہ دوسری عورت خوب صورت نہیں ہے، سانولی، فربہ، بے ڈھب بدن والی عام سی عورت مگر ویسی ہے کہ جس کے ساتھ جیا جا سکتا ہے اور مرا بھی جا سکتا ہے بغیر کسی پچھتاوے کے۔ یہاں آکر جب زندگی اپنا اصل بھید کھولتی ہے تو سرشار کر دیتی ہے اور ایسے میں ایک دوست کا دوسرے دوست کو بے تکلفی میں لات مارنا مزہ دے جاتا ہے۔
کہانی ” محمد حسین کی خود کشی“ میں عیار محبت کا دل کش تذکرہ ہے۔ اس تذکرے میں ایک ایماندار افسر ہے جسے محبت کی چمک میں پاو¿ں دبانے والی بیوی ، روح میں گداز پیدا کرنے والی ننھی سی گڑیا اور پل پل دعائیں دینے والی ماں حتّٰی کہ کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ اگر یاد رہتا ہے تو فقط ریحانہ قریشی کا ملیح چہرہ اس کے گالوں کی ابھری ہوئی ہڈیاں اور آنکھوں میں دوستانہ مسکراہٹ کی جگمگاہٹ۔ اس لش لش کرتی محبت میں محمد حسین اپنی خود کشی کا سامان اپنے ہاتھوں سے یوں کرتا ہے کہ کلفٹن کی مرکزی شاہراہ کا ایک ایسا پلاٹ ڈیڑھ کروڑ میں قریشی بلڈرز کو الاٹ کر دیتا ہے جسے وہ بعد ازاں گیارہ کروڑ میں بیچ ڈالتے ہیں۔ تب اسے لگتا ہے وہ اندر سے مر رہا ہے اور جب وہ بیماری کی رخصت سے پلٹتا ہے تو وہ خود نہیں ہوتا اس کی لاش ہوتی ہے جس کے سامنے بیٹھا تعمیراتی سیٹھ کَہ رہا ہوتا ہے۔ ”حکم کریں سرکار“
دل نشیں بیانےے اور واقعات کی مناسب ترتیب نے قدرے پرانی کہانی کو نیا پن دے دیا لیکن اب مجھے ایک ایسی کہانی کا تذکرہ کرنا ہے جو سچ مچ نئی ہے بدن کو چیر کر اندر گھُس جانے والی اس نویں نکور کہانی کا تانا بانا ”باو¿ وارث کم گُم شُدگی“ سے متعلق تحقیقی رپورٹ کے اقتباسات سے بُنا گیا ہے جس کا کلائمکس ڈکیتی والی ایک رات ہے جب پستول کی کالی نالی کے سامنے باو¿ وارث کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں وہ معافیاں مانگتا ہے، منتیں کرتا ہے، روتا ہے گڑگڑاتا ہے کہ وہ مرنا نہیں چاہتا اس لےے کہ اسے اپنے بیٹے کا کام یاب شخص دیکھنا ہے، اسے بیٹی کو رخصت کرنا ہے اور وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ اس کی بیوی بے سہارا ہو جائے۔ جب یہ منظر بدلتا ہے تو بیٹی اور بیوی کی نظروں میں چھپی نفرت باو¿ وارث سے برداشت نہیں ہوتی اور بیٹے کا یہ کہنا کہ ” آدمی کو اتنا بزدل نہیں ہونا چاہےے“ اس کی عمر بھر کی محبت کو رائیگاں کر دیتا ہے۔ وہ خیال کرتا ہے کہ اچھا ہوا جو محبت ماپنے کا آلہ ایجاد نہیں ہوا اگر ایسا ہو جاتا تو اور زیادہ دکھ ہوتا کہ اتنے ٹن محبت ضائع ہو گئی۔ پھر وہ ان کی زندگیوں سے یوں نکل جاتا ہے کہ باقی فقط نامکمل تحقیقاتی رپورٹ رہ جاتی ہے۔ اخلاق احمد نے پوری حیات پر محیط بے لوث محبت کے رائیگاں چلے جانے والے لمحے کو کمال چابک دستی سے گرفت میں لیا ہے۔
برباد ہو اجانے والی محبت کے پہلو بہ پہلو باقی رہ جانے والی محبت کی ایک کہانی بھی اس مجموعے میں جگہ پا گئی ہے یہ کہانی ”ایک محبت بھری عورت“ ہے۔ یہ مصطفی زیدی کے ہم نام ایسے شاعر کی کہانی ہے جو دراصل شاعر نہیں ہے مگر شاعر کی سی زندگی گزارنے کی طلب کے بیچ ہی مر جاتا ہے۔ یہ کہانی اس کی بیوی رابعہ کی بھی ہے جو اپنے شوہر کے مرنے کے بعد بھی اس کی محبت میں زندہ رہنا چاہتی ہے اور اس کا مجموعہ کھٹمنڈو سے اس لےے چھپوانا چاہتی ہے کہ پاکستانی صحافی شہباز حسین نے اِسے یقین دلا دیا ہے کہ وہ اس صدی میں سب سے طاقت ور اردو شاعر ہے۔ عورت کی محبت تو ازل سے اتنی ہی روشن، اتنی ہی اندھی اور اتنی ہی پُرجوش رہی ہے مگر سچ جانےے تو یہ کہانی شہباز حسین کی بھی ہے جس کے پاس رابعہ کے لےے ایسے مشکوک لفظ ہیں جو کتابوں کے فلیپ لکھنے والوں کے پاس اکثر ہوتے ہیں۔ میں ان پیشہ ور فلیپ لکھنے والوں کو عجب عجب پینترے بدلتے دیکھا ہے۔ ان کا لکھا ان کے کہے سے کوسوں دور ہوتا ہے۔ اتنا دور کہ بیچ میں سچ کہیں گم ہو جاتا ہے۔
مجموعی طور پر اخلاق احمد کی کہانیاں ایسے نفسیاتی الجھاوے ہیں جو بڑی سہولت سے اپنا سِرا قاری کے ہاتھ میں تھما کر خود بخود کھُلتے چلے جاتے ہیں۔ ”تھینک یو مولوی صاحب“ اس کی ایک عمدہ مثال ہے جو ایک ایسے قاتل کہانی ہے جسے کچھ ہی دیر بعد پھانسی چڑھ جانا ہے او ر وہ مولوی صاحب سے پوچھنا چاہتا ہے کہ اندھے قتل کا اعتراف کر کے اور سزائے موت پا کر وہ کہیں خود کشی کا مرتکب تو نہیں ہو رہا اور کیا خود کشی کا کوئی جائز راستہ بھی ہو سکتا ہے؟
اخلاق احمد جب اپنی کہانیوں میں عجیب عجیب سوالات اٹھاتا ہے تو ادھیڑ عمر کو پہنچ بصارت پانے والے ایس بی کا کیس یاد آجاتا ہے اور اسی کیس کے حوالے سے آر ۔ ایل ۔ گریگوری نے جو کہا تھا اسے کَہ دینے کا مرحلہ آ گیا ہے۔ ہوا یوں کہ ایس بی کو جب بصارت مل گئی تو اس کے بَرتے ہوئے حِسی ادراک اور نئے بصری ادراک کے بیچ اتنا بُعد تھا کہ اس کا فاصلہ پاٹتے پاٹتے وہ تیسرے سال ہی مر گیا۔
تاہم میں نے جو شروع میں یہ کَہ دیا تھا کہ اخلاق احمد کا مقدر الگ ہے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ کم حوصلہ نہیں ہے اور باتدبیر بھی ہے۔ اس نے طویل عمری کا حیلہ یوں کیا ہے کہ کہانیوں کو اپنی کھڑکی سے اندر آنے دیا ہے اور کہانیوں کے بیچ اپنی زندگی کے سچ کو بھی داخل ہونے دیا ہے۔ ایسے میں مجھے گراہم گرین کا کہا یاد آرہا ہے۔ اس نے لکھا تھا : ”لکھنا طریقِ علاج ہے۔“
اس نے یہ بھی لکھا تھا: ”بعض اوقات مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو لکھتے نہیں، شعر نہیں کہتے، مصوّری نہیں کرتے، اس پاگل پن ، جنون اور ہیبت ناک خوف سے جو انسانی صورت حال میں موجود ہوتا ہے، فرار کی راہ کس طرح نکال لیتے ہیں۔“
اخلاق احمد نے نہ صرف ہیبت ناک انسانی صورت حال سے فرار کی راہ نکال لی ہے، زندگی کے سچ کے لےے خوابوں کی پناہ گاہ بھی ڈھونڈ نکالی ہے اور یہ ایسی پناہ گاہ ہے جس میں ادا کیا جانے والا ہر لفظ کمبی عمر پا لینے کا وظیفہ کرتا ہے۔


سنگ بستہ

سنگ بستہ (افسانے) / طاہرہ اقبال
محمد حمید شاہد

جب آپ ٹھوس واقعات پر انحصار کرتی ایسی کہانی پر بات کرنا چاہیں گے جو کچھ کچھ باغی ہو، ذرا سی رومانی ہو، جس کے بہاو¿ میں نفسیاتی الجھنوں کی جھن جھن ہو اور جو سماج سے کُلّی طور پر یوں جڑی ہوئی ہو کہ اس کی حقیقت ہی نہ کھولے اس کے بخےے بھی ادھیڑتی چلی جائے تو سعادت حسن منٹو کو آپ وہیں پائیں گے .... راہ روکے ہوئے .... اور کچھ نہ کچھ کہتے ہوئے۔ منٹو کو حق پہنچتا ہے کہ وہ یوں راہ روک کر کھڑا ہو جائے۔ اور جو چاہے، جیسے چاہے کَہ دے۔ آپ اس سے اختلاف کرنا چاہیں سو بار کریں مگر اس کی بات سننا ہم پر لازم ہے کہ یہ حق اس نے کہانی کے بیانےے کی طنابیں کھینچ کر اور اس کی روشن لکیر کے سامنے موضوعات کا پرزم رکھ کر حاصل کیا ہے۔
گذشتہ دنوں میرے ساتھ یہ ہوا کہ جب میں ایک مرد افسانہ نگار کی وہ کہانیاں پڑھ رہا تھا جو عورت ذات کے گنجل کھولنے کے لےے لکھی گئی تھیں، منٹو آ موجود ہوا تھا۔
منٹو پھر آ موجود ہوا جب میں طاہرہ اقبال کے پندرہ افسانوں کا مجموعہ ”سنگ بستہ“ پڑھ رہا تھا۔
لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں مرتبہ منٹو کے ہونٹوں پر وہی جملے تھ تھرا رہے تھے جو اس نے دامودر گپت کی قدیم سنسکرت کتاب ”نٹنی متم “ کے اُردو ترجمہ ”نگار خانہ “ کے دیباچے میں لکھے تھے۔ میں منٹو کے لفظ دہرا دیتا ہوں:
” ....اور سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ ان تمام باتوں کو قلم بند کرنے والا ایک مرد ہے.... یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔ اس لےے کہ عورت چاہے بازاری ہو یا گھر یلو، خود کو اتنا نہیں جانتی جتنا کہ مرد اس کو جانتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عورت آج تک اپنے متعلق حقیقت نگاری نہیں کر سکی ۔ اس کے متعلق اگر کوئی انکشاف کرے گا تو مرد ہی کرے گا ....“
لیجےے صاحب! جو منٹو نے کہا تھا، میں ہوبہو دہرا دیا۔ لفظ لفظ اسی کا ہے۔ لہٰذا سارے گناہ ثواب کا حق دار بھی وہی۔ میں نے دہرایا بھی تو کلیجہ ہلتا ہے۔
تاہم مجھے اِن کلمات سے ہونٹوں کو یوں آلودہ کرنا پڑا ہے کہ یہ منٹو نے ایسے ہی کہے تھے۔
عورت اپنے بدن کی کھال کے اندر کیوں نہیں اترتی۔ شاید اس لےے کہ باہر ٹھہرنے اور ٹھہرے رہنے ، اسے سجانے، چمکانے اور جاذبِ نظر بنانے ہی میں اسے لطف آنے لگتا ہے۔
میں جب بھی عورتوں کی لکھی ہوئی عورتوں کے بارے میں کہانیاں پڑھتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے ان کے جملے اس پڑچھے کی مانند ہو گئے ہیں جس میں ماہل سے بندھے پانی سے بھرے ٹینڈے ایک ایک کر کے خالی ہوتے رہتے ہیں مگر اس کے اندر ایک قطرہ پانی بھی نہیں ٹھہرتا۔
تاہم میں بہت سے مرد افسانہ نگار گنوا سکتا ہوں جو عورت ذات کے خوب صورت پہناوے الگ کرتے ہیں، ان کی چکنی کھال کھرچ ڈالتے ہیں اور بدن کی پہنائیوں میں اتر کر روح پر لگے زخموں کو کاغذ پر اتاردیتے ہیں۔
ایسے میں منٹو کا کہا ہوا ایک ایک لفظ بہت یاد آتا ہے۔
تاہم گذشتہ کچھ عرصے سے یہ روایت ٹوٹی ہے اور ایسی خواتین افسانہ نگار تواتر سے سامنے آرہی ہیں جو صرف آئینہ ہی نہیں دیکھتیں اپنا وجود بھی دیکھتی ہیں۔ اپنا وجود جس کے اندر وہ اپنے تمام تر جذبوں ، حسرتوں، ناکامیوں اور خامیوں کے ساتھ موجود ہیں۔
طاہرہ اقبال کی کہانیوں کو پڑھتے ہوئے مجھے یوں لگا ہے جیسے وہ بھی عورت کے بھیدوں کو جاننے، اسے سمجھنے اور اس کے بجھارت وجود کو بوجھنے کا صدق ِدل سے تہیہ کےے ہوئے ہیں۔ ”سنگ بستہ“ کی کہانیاں پڑھتے ہوئے ایسے مواقع آتے ہی چلے جاتے ہیں کہ آپ چونکتے ہیں۔ دکھی ہوتے ہیں یا فقط لمبی سانس لے کر رہ جاتے ہیں۔ کہیں کہیں تو کہانی کی عورتوں کے ساتھ آپ افسانہ نگار خاتون کو بھی صاف صاف محسوس کرتے ہیں اس کے کردار کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے ہوئے، اسے ایک نئی راہ سجھاتے ہوئے یا پھر مرد کو زیر کرنے کا ایک نیا گُر بتاتے ہوئے۔ افسانہ ”شب خون“ کے ظالم جاگیر دار باپ شہباز خان کی حویلی میں سسک سسک کر مرنے والی عورتوں میں سے ایک لڑکی رابعہ ہی کو لے لیں، طاہرہ اقبال نے اس کا دل اتنامضبوط بنا دیا کہ وہ حویلی کا بیرونی دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ حالانکہ اونچی دعواروں والی حویلی میں یا تو عورتوںکو پاگل ہوتے دکھایا گیا ہے یا پھر موت کا لقمہ بنتے ہوئے۔
عورت ذات کو کریدتی ان کہانیوں میں افسانہ نگار خاتون کے قلم کے کرشمے نے ” تپسّیا“ کی بوڑھی دلہن زینب کا ایک ایسا کردار بھی تراشا ہے جواپنے اٹھارہ سالہ شوہر سانول کو نکال کر لے جاتی ہے۔ کہانی کار کے قلم کا سارا وزن بوڑھی زینب کے پلڑے میں ہے۔
کہانی ” آپے رانجھا ہوئی“ کی خوبرو زہرہ جب رحیم داد کو اکھاڑے سے نکال کر اپنے وجود کے اندر سما لیتی ہے اس وجود کے اندر کہ جس میں طلب کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے تو اسے پروا نہیں ہوتی کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ ”اسیرِ ذات “ کی نومی کو بھی کسی اور کی پروا نہیں ہے حتیّٰ کہ اپنے شوہر معروف ڈٓکٹر رحمٰن آفریدی کی بھی نہیں تبھی تو وہ اٹھارہ سالہ طالب علم ”علی“ کو اپنی تنہائیوں کا ساتھی بنا لیتی ہے۔ جب رحیم داد قتل ہو گیا یا پھر نومی، نوعمر علی کا ہم شکل بچہ جَن کر اُسے آزاد کر رہی تھی تو میں سوچ رہا تھا کہ آخر افسانہ نگار خاتون نے یہ دونوں کردار اس قدر ظالم کیوں بنائے ہیں؟ ایک عورت عورت کے ایسے ہی کردار بناتی ہے ، مرد کو چیر پھاڑ ڈالنے والے۔ اس کو قدموں کی مٹی چاٹنے پر مجبور کر دینے والے۔
اپنے حسن میں سب کو روند کر گزر جانے والی عورت کے کردار ”مرقدِ شب “ کی ”ہاجو “ بھی کچھ ایسی ہی ہے نذیرے کے بیمار وجود کو روند کر بشیرے کے صحت مند جسم پر نظر رکھنے والی .... افسانہ ”یہ عشق نہیں آساں “ کی عاشی اس سے بھی حوصلے والی اور خود غرض نکلتی ہے اتنے حوصلے والی اور اتنی خود غرض کہ ماں باپ کی اکلوتی اولاد شہزاد کو گھر سے ساتھ بھگا لے جاتی ہے اور یہ بھی نہیں سوچتی کہ یوں نہ صرف وہ خود تباہ ہو گی، ایک اور پورا گھرانہ بھی تباہ ہو جائے گا۔
آپ کہانیاں پڑھتے جاتے ہیں۔ بظاہر مظلوم عورت کو بیان کرتی کہانیاں اور سطروں کے بیچ سے عورت ایک اور روپ لے کر جلوہ گر ہو جاتی ہے۔ وہ روپ جو شاید طاہرہ اقبال نے قصداً نہیں لکھا ہے۔ اس کی عورت ذات سے خود بخود سر زد ہو گیا ہے۔ ہر کہانی کے اندر بیان ہوتی ان کہانیوں میں عورت کہیں کہیں تو بہت ظالم ہو جاتی ہے اتنی ظالم کہ ہمیں یہ مردوں کا معاشرہ دکھتا ہی نہیں ہے۔ ”بھوک بھنور“ کی سیانی کے بارے میں آپ کیا فیصلہ دیں گے جو سوہنے سے کہتی ہے۔
”سوہنے تو بھی چھڑا ہے، میں بھی بڈھے سے کَہ آئی ہوں کہ اب کے تیرے پاس لوٹوں تو موئے کتے کا ماس کھاو¿ں .... چل دونوں مل کر رہیں۔“
اور اسی افسانے کی ایک اور کردار چاچی چُنّو کے بارے میں آپ کا فیصلہ کیا ہے جو سوہنے کے لےے حیا کی سرخی اپنے بوڑھے چہرے پر سجا کر اُس کی اچھی چُنّو بن جاتی ہے۔
مرد گِر جاتا ہے کہ عورت اسے گِرا دیتی ہے۔ اپنے زور سے نہیں، داو¿ سے ، تدبیر سے اور اپنی چالوں سے۔
”خواب کہانی“ کی طلعت کو بظاہر بہت مظلوم دکھایا گیا ہے۔ تین مرلے کے مکان میں رہ کر اُجلے خواب دیکھنے والی معلّمہ، جو اپنے محبوب کے دوستوں سے بال بال بچتی ہے۔ شادی شدہ شہباز کی دوسری بیوی بن جانے سے بچنے کے لےے بھی اسے بھاگنا پڑتا ہے۔ مگر ہمت والی ہے اپنے غرور سمیت بچ نکلتی ہے۔ اور پھر جب اس کی بہن ایک ایسے نوجوان کا رشتہ تجویز کرتی ہے جو بے ساکھی کا سہارا لے کر چلتا ہے تو وہ اسے ناقبول کی سطح پر رکھ کر قبول کرتی ہے۔
مرد میں نقص ہو تو مرد مردود ہو جاتا ہے۔ عورت معذور ہو تو مظلوم ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اسے وہ ملنا چاہےے جس کے وہ خواب دیکھتی ہے۔
طاہرہ اقبال اپنی کہانیوں کی عورتوں کے خوابوں کو اجالتی چلی جاتی ہے۔ اس کے لےے وہ فضا ایسی بناتی ہے کہ پڑھنے والا بھی عورت کے ساتھ ساتھ چلنے لگتا ہے۔
کہانی ” حسن کی دیوی“ کی رانو کو لے لیں کیسے بجلی کے کوندے کی طرح امتیاز پر برستی ہے اور کیسے اس کے بھائی افتخار کی تسکین کا سامان ہوتی ہے وہ حویلی سے باہر اپنے لےے لڑنے والوں کی طرف بھاگتی نہیں حتّٰی کہ ملک صاحب سے اپنے حسن کا خراج پا لیتی ہے .... افسانہ نگار کا قلم اسے مظلوم بنا دیتا ہے اس قدر مظلوم کہ یہی رانو بی بی جی کے اُس کردار پر چھا جاتی ہے جو اپنے بیٹے کے سر پر چپت لگا کر حویلی کے مردوں اپنا شغل جاری رکھے چلے چانے کا حوصلہ دیتی ہے۔
طاہرہ اقبال نے اپنے افسانے کی ایک ایک عورت میں کمال کا گھمنڈ ڈال دیا ہے، وہی گھمنڈ جو عورت میں آ ہی جایا کرتا ہے۔ بظاہر اس کی کہانیاں اِس غرور اور گھمنڈ کو موضوع نہیں بناتیں بس ہوتا یوں ہے کہ یہی موضوع کہانی کے بھید کی طرح اِن کے بیچ سے برآمد ہو جاتا ہے۔ ”خراج“ کی آمنہ علی اپنے جیسا پس منظر رکھنے والے معمولی شکل و صورت کے غفور احمد کا رشتہ اِسی بِرتے پر تو ٹھکرائے چلے جاتی ہے اور قبول کرنے کا سمے تو دیکھےے .... اور کراہت کی انتہا کو تو محسوس کیجےے .... کیا معمولی شکل و صورت کا پیدا ہونا اور عام پس منظر رکھنا غفور احمد کی مرضی سے تھا۔ کیا اس جبر کے سلسلے سے نکل آنا اس کے بس میں تھا۔ شاید نہیں بلکہ یقینا نہیں۔ ہاں محبت کرنا اس کے بس میں تھا لہٰذا اس نے محبت کی مگر ایک خوب صورت لڑکی کے لےے صرف محبت شاید کوئی معنی نہیں ہوتے۔
کہانی ” سڈن ڈیتھ“ کا مرد کردار ڈاکٹر عامر خوب صورت .... مگر اس کا جرم یہ ہے کہ وہ مرد ہے لہٰذا ایک عورت کا دل جیتنے سے قاصر رہتا ہے۔ وہ تب ہی قابلِ قبول ہو سکتا تھا کہ وھیل چیئر کے سہارے حرکت کرنے والی ثمینہ سے وہ وعدہ نبھاتا جو اس نے کبھی کیا ہی نہیں تھا لہٰذا وہ ناہید کو شادی کا پیغام دے کر ذلیل ، کمینہ اور فریبی جیسے القابات کا حق دار ٹھہرتا ہے۔
کہانی ”راکھ ہوتی زندگی کا منظرنامہ “ ہو یا ”پتھر دھڑ ولی شہزادی“ اور ”پٹھانی“ مرد سے برتر عورت کا یہی پُر غرور روپ کہانی کے عین وسط سے چھلک پڑتا ہے۔
طاہرہ اقبال کے تراشے ہوئے عورتوں کے یہ کردار منٹو کا جملہ بار بار میرے ذہن میں پھینکتے رہے ہیں تاہم مجھے خوش گوار حیرت ہوئی جب میں نے اس کے مرد کرداروں کو دیکھا۔ مرد کی نفسیات کا کمال باریک بینی سے مشاہدہ کیا گیا ہے اس کے بدن کھانچے میں بیٹھ کر، اس کے وجود میں اُتر کر اور اس کی رگ رگ میں دوڑ کر۔
مرد کیسے بنتا ہے اور کیسے بگڑتا ہے۔ کیسے ظالم ہو جاتا ہے اور کیوں سہم جاتا ہے صرف ایک کہانی ”شب خون“ پڑھ لیں سارا عقدہ وا ہو جائے گا۔
شہباز خان کو ثریا بیگم جیسی بیوی نہ ملتی تو وہ کیسے ظالم بن سکتا تھا۔ اس کے بیٹے ناصر خان کو نجمہ جیسی عورت کس طرح بدل کر رکھ دیتی ہے۔ ”تپسّیا“ کا سانول ہو یا ”اسیرِ ذات“ کا ڈاکٹر رحمٰن اور علی، ”مرقدِشب“ کا نذیر ہو یا ”آپے رانجھا ہوئی“ کا رحیم داد اور نذیرا یا پھر ”یہ عشق نہیں آساں“ کا شہزاد اور دوسرے افسانوں کے مرد کردار ، عورت کے وجود سے محبت، خوف ، طاقت حتّٰی کہ زندگی اور موت کشید کرتے نظر آتے ہیں .... اور یہ اِن کہانیوں کا سچ ہے۔
ایسا سچ جو بولے اور لکھے جانے والے سچ سے کہیں زیادہ راسخ ہے۔ طاہرہ اقبال کی کہانیوں میں عورت کا کردار مرکزی ہو جاتا ہے۔ تصویرِ کائنات میں محض رنگ بھرنے والا نہیں، پورے سماج کو اپنے محور پر گھمانے والا۔ عورت کے کردار ہوں یا مرد کے، طاہرہ نے انہیں تراشا بہت محبت اور خلوص سے ہے یوں کہ وہ اپنی شباہت مکمل کرتے ہیں، اپنے قدموں پر کھڑے ہوتے ہیں، کہانی کے بہاو¿میں چلتے پھرتے ہیں اور کہانی ختم ہونے کے فوراً بعد تحلیل نہیں ہوتے کچھ نہ کچھ پڑھنے والے کے وجود میں رہ جاتے ہیں۔ یہی طاہرہ اقبال کا کمالِ فن ہے۔
یہ وصف اُسے بہت آگے لے جائے گا۔ یقین کیا جانا چاہےے کہ وہ ایسے کردار تخلیق کرنے میں ضرور کام یاب ہو جائے گی جو لمبی عمر پا لیا کرتے ہیں اور اگلے زمانوں میں جا بستے ہیں۔ بس شرط محنت ، حوصلے اور صبر کی ہے۔

میر ظفر حسن کی نظمیں

محمد حمید شاہد
میر ظفر حسن کی نظمیں

میر ظفر حسن کی نظمیں پڑھتے ہوئے میں اپنے ایک دوست کو خوب رویا ہوں ‘ اس دوست کو جو بہت گًنی تھا‘ تراجم کئے ‘ انگریزی اور اردو میں نظمیں لکھیں اور ساتھ ہی ساتھ اتنی پی کہ پھیپھڑے سیٹیاں بجانے لگے ‘ حتی کہ وہ مستقل بستر پر پڑ گیا ‘ پیشاب کی نالی لگ گئی کہ گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ‘ آکسیجن پہ آگیا کہ سانس لینا محال تھا‘ نرخرہ چیر کر غذا اندر ڈالی جاتی ‘ آخری دنوں میںیوں بے سدھ پڑا رہتا یا تڑپتا کہ کلیجہ منہ کو آتا تھا ۔ میں روز ہسپتال جاتا‘ اس کی بیوی کی ہمت کو دیکھتا جو عبادت جان کر اسے بچا لینے کے جتن کر رہی تھی‘ مگر وہ بچا نہیں ‘مر گیا۔ وہ بات جس پر میر ظفر حسن کی نظموں نے رلایا وہ میرے دوست نے اپنی موت سے ڈیڑھ دو سال پہلے کہی تھی اور اب اس میں اس کی موت کا مقطع لگ چکا ہے۔
میر ظفر حسن کی نظمیں پڑھتے ہوئے میں نے اسی چمک کے جھپاکے بار بار دیکھے ہیں ‘ یوں کہ اپنے مر چکے دوست کی آنکھوں کے چمکتے خواب اور آنسو میری آنکھوں میں بھر گئے تھے۔ وہ بات کیا تھی ؟ جو مجھے اب یاد آرہی تھی‘ صاحب پہلے وہ سن لیں ۔ جس دوست کا میں تذکرہ کر رہا ہوں وہ اور میں ایک ہی گلی میں رہتے رہے ہیں ۔ بھابی کو تب گاڑی ریورس کرنا نہ آتی ‘ میرا دوست گاڑی کو ہاتھ نہ لگاتا تھا کہ اس کے ہاتھ اور دل ایک سا تھ کا نپنے لگتے تھے۔ میرے گھر پر پہنچ کر گلی بند ہو جاتی تھی ۔ اور اس سے پہلے‘ یعنی ڈھلوان پر ‘اپنے گھر کے سامنے بھابی گاڑی نہ روک پاتی تھی ۔ گاڑی گلی کو کاٹتی دیوار کے سامنے رک جاتی تو بھابی ‘ ہارن بجا تی یا ہمارے گھر کی کال بیل دے دیتی ‘ میں سمجھ جاتا مجھے ریورس کرکے گاڑی ڈھلوان پر چڑھاکر ان کے گھر پورچ میں پارک کرنی ہے ۔ ایک روز یونہی گاڑی پارک کر چکا تو بھابی نے لگ بھگ چہکتے ہو ئے کہا ‘ سنو تمہارے بھائی نے پینا چھوڑ دی ۔ میں نے بے یقینی سے کہا اس کی طرف دیکھا تواس کی آواز لرزنے لگی تھی کہا‘ ” اب تو کئی روز ہو گئے ہیں ‘لگتا ہے شاید مستقل “ ۔ مجھے یقین نہ آیا تھا لہذا اس کے کمرے میں پہنچا وہ کتابوں کا انبار میں غرق تھا میں پوچھا تو اس نے جو کہا وہ‘ وہی ہے جو میر ظفر حسن کی نظمیں پڑھتے ہوئے یا د آیاہے۔ اس نے کہا تھا ”یہ جہاں تک مجھے لا سکتی تھی لے آئی ‘ اب تو گرائے جاتی ہے “
میر ظفر حسن کی نظموں کا مطالعہ مادے کی سطح پر زندگی بتانے والوں کے باطنی کرب کا سارا بھید کھول دیتا ہے ۔ بظاہر چمکتی لشکتی زندگی جس میںشراب جیسی لڑکیاں بھی ہیں اور رس بھری جوانیاں بھی بہت جلد اس نشے کی صورت ہو جاتی ہیں جو اندر سے آدمی کو کھوکھلا اور تنہا کر دیتی ہیںیہ تنہائی میر ظفر حسن کی نظموں میں احساس کی باریک اور نازک سطحوں پریوں عمل کار ہوتی ہے کہ روح کی تاروں میں تانت اور آنکھوں میں آنسو بھر جاتے ہیں ۔
”کہیں کچھ کھو گیا ہے“ کے دیباچے میں میر ظفر حسن نے تنہا ہو جانے والے انسان کا المیہ اس تگ و دو سے جوڑا سے جس میں آدمی زیادہ سے زیادہ چیزیں گھر میں بھر لینا چاہتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ اس دوڑ میں اس کا رنگ ‘ اس کا آہنگ اور اس کی روح سب کے سب اس سے بچھڑ گئے ہیں۔ میرظفر حسن کے تجزیے کے مطابق ا نسانیت کو تباہی کی طرف دھکیلنے والی وہ سو ملٹی نیشنل ادارے ہیں جو دنیا کا ۰۸ وی صد سرمایہ ہتھیائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ساری دنیا کو بازار بنا دیا ہے ۔ وہ ‘جو زندگی کی بنیادی ضروتیں تھیں صاحب ‘ وہ تو ثانوی ہو گئیں اور جن کے بغیر زیادہ بہتر طریقے سے جیا جا سکتا تھا اسے زندگی کا نشہ بنا کر اندر سے آدمی کو کھوکھلا کر دیا گیا ہے ۔ اشتہارات ‘ لذیذ اشتہارات‘ بے پناہ اشتہارات اور خدا پناہ زندگی کو اشتہاری بناڈالنے والے اشتہارات‘ انہوں نے افکار میں رخنے ڈال دئےے ہیں ۔ میرظفر حسن کا کہنا ہے کہ اس سب کچھ نے ہمیں زندگی کی بھر پور تمنا اور اصل لطف سے دور کر دیا ہے ۔ ہم کسی اور کے خوابوں کی تکمیل میں جتے ہوئے ہیں ظلم ہوتا ہے ‘ وسائل کے حصول کے لیے ظلم ہوتا ہے ‘ ہم اس ظلم کو اپنی کھلی آنکھوں سے ہوتا دیکھتے ہیں مگر اشتہارات نے ہمارے خوابوں اور آدرشوں کو یوں بدل دیا ہے کہ ہم اس پر چیختے ہیں نہ احتجاج کرتے ہیں۔
ایک اور بات جو مجھے میرظفر حسن کی نظموں میں نظر آئی وہ یہ ہے کہ وہ تخلیقی سطح پر تجرید کی بجائے ترتیب کی طرف پوری دیانت داری سے متوجہ ہیں ۔ اپنے اس فطری رویے کے سبب وہ نظموں کو معنی کی ایک جہت دینے میں کامیاب ہوئے ہیں ‘ ایک سطر سے ایک سے زائد معنی تلاشنے اور متن کو زبان کی اپنی اس مابعد الطبعیات سے جوڑنے کا چلن ان کے ہاں خال خال آیا ہے جو حسن عسکری نے شناخت کیا تھا اور سچ تو یہ ہے جو اسے سمجھ لیتا ہے اس کی تخلیق بھدوں بھرا خزینہ ہو جاتی ہے ‘تاہم میر ظفر حسن نے کہانی کی سطح پر نظموں کو برت کر اس میں کہانی کا بھید داخل کر دیا ہے ۔
”بس اک کمرے کا گھر تھا وہسب اس کمرے میں سوتے تھے کیا شور تھا ‘کیا ہنگامہ تھاکیا لمبی تان کے سوتے تھے اک خواب تھا ‘اپنا کمرہ ہو اک مہکا مہکا بستر ہواب تو کئی کمرے ہیں گھر میں اک تنہا ٹھنڈا بستر ہے سونے میں ڈھلا ‘کانٹوں سے بھرا تنہائی سے تنہا کیسے لڑیں پھر اک کمرے میں بس جائیں !“ ( واپسی کہیں کچھ کھو گیا ہے )
میں میر ظفر حسن کی نظموں کی سادگی اور متن کے اندر بہتے معنی کی راست ترسیل کے سبب کہہ آیا ہوں کہ معنوی دبازت سے کہیں زیادہ وہ معنی کی تظہیر کے قائل ہیں لیکن اس سادہ سی نظم کو میر ظفر حسن نے گزرتی زندگی کے عذابوں کی علامت بنا دیا ہے۔ میں نے اس نظم کے اکلوتے کمرے کو اپنی تہذیبی شناخت کے طور پر دیکھا ہے جو بظاہر تنگ تھی‘ اس میں چمک بھی نہ تھی ‘ وہ سادہ تھی اور اس میں نئی دنیا کا بہت کچھ نہ سہی ‘ زندگی سے لبریز چہچہے تھے محبت اور اخلاص تھا اور ایک دوسرے کے لیے جینے کی تمنا تھی ۔ اور یہ بہت سے کمروں والا گھر اس تہذیب کی علامت ہو گیا ہے جسے تہذیب کہنا خود اِس لفظ کی توہین کے مترادف ہے ‘ سونے سے ڈھلے اس نئی تہذیبی دھارے میں ہمارے اپنے دکھ سکھ بہہ گئے ہیں اور انسانیت فرد کی سطح پر تنہا ہو گئی ہے ۔
میر ظفر حسن کی نظمیں انہیں دکھوں اور سکھوں کو تخلیقی سطح پر برتتی ہیں اور اپنے پڑھنے والوں کے دلوں کو دکھ اور درد سے بھر دیتی ہے ۔ وہ جو ان کے ہاں احساس کی مربوط صورت نکلتی ہے‘ خیال کی سطح بھی مربوط رہتی ہے اور متن کہانی کی طرح مکمل ہو جاتا ہے اس نے ان کی نظموں میں شاعر کو شعور کی سطح پر بہت توانا دکھایا ہے ۔ تنہائی کا نوحہ کہتے ہوئے بھی وہ پوری کتاب میں فرد اور معاشرے سے جڑے ہوئے نظر آتے۔ میں سمجھتا ہوں یہی ایک تخلیق کار کی زندگی کی علامت ہوتی ہے ۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ میر ظفر حسن کی نظموں کی دوسری کتاب ہے یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس تخلیقی علاقے میں دور تک چلنے اور دیر تک رہنے کی تمنا ان کے ہاں موجود ہے ۔ امید کی جانی چاہئے کہ ان کا یہ سفر اسی اخلاص سے آگے کی سمت جاری رہے گا۔
٭٭٭

جدید سندھی ادب-میلانات‘ رجحانات‘ امکانات

محمد حمید شاہد
جدید سندھی ادب:ایک تاثر
(میلانات‘ رجحانات‘ امکانات)

رگ وید میں لکھا ہے
ََاے سندھو !تیری موجوں کی گھن گرج زمین سے آسمان تک پہنچتی ہے۔
تیری بپھری ہوئی لہروں میں زندگی کی برق رفتار روانی اور بہاﺅ ہے اور جب گرجتے بادل تجھ پر برستے ہیں تو تُو کسی حاملہ عورت کی طرح اٹھلا اٹھلا کر چلتا ہے۔
اے سندھو !دوسری ندیاں دودھ دیتی ہوئی گایوں کی مانند ہیں جو اپنے بچھڑوں کو دودھ پلانے کے لیے بے چینی کے ساتھ دوڑتی ہیں اور تو کناروں کے بیچ اُچھل اُچھل کر ان کی یوں رہنمائی کرتا ہے جیسے کوئی سیتا پتی یا راجا‘جنگ کرنے کے لیے یلغار کرتا ہو۔
ہمیشہ رواں دواں سفید جھاگ اڑاتے شفاف چمکتے پانیوں والےسندھو دریا !تیرا بہاﺅ سرکش اور کرشماتی گھوڑوں کی طرح تیزوتند ہے اور تیرا روپ ایسا ہے جیسے کوئی خوش جمال حسینہ۔
جل دیوتا ‘ تیرے شایان شان استقبال کے لیے سات سات ندیوں کو تیری پیشوائی میں حاضر رکھتا ہے کہ تو ایک عالم کو سیراب کرتا رہے ‘
سندھو !تو عمدہ اور پُر وقار گھوڑوں والی رتھ پر خوش خرامی کے ساتھ بہے چلا جاتا ہے ۔
tہم اس عالی شان رتھ والے سندھو کا جُگ جُگ خیر مقدم کرتے ہیں۔
”آشوب سندھ اور اردو فکشن“ کے فوراُ بعد لگ بھگ سولہ سو صفحات پر مشتمل سید مظہر جمیل کی ایک اور شاندار کتاب ” جدید سندھی ادب۔ میلانات‘رجحانات‘امکانات“ پڑھ کر اٹھاتو دریائے سندھ کا وہ منظر جو رگ وید میں دکھایا گیا تھا‘ میری نظروں میں سمایا ہوا تھا ‘ بس فرق تھا تو اتنا کہ سات سرکش ندیوں کی جگہ ان پندرہ ابواب نے لے لی تھی جنہوں نے سندھ کے پانیوں سے سیراب ہوتی مٹی کی مہک کو اپنے اندر سمولیا ہے ‘ اور وہ بھی صاحب یوں کہ اس کا قاری نہ صرف اس دھرتی پر بنتی بگڑی زندگی ‘ تہذیبی ہماہمی اور سماجی شعور کی تاریخ سے اگاہ ہوتا ہے وہ سندھی زبان و ادب کے ضمیر ‘ معنیاتی نظام اور جمالیاتی دھاروں کے مقابل بھی ہو جاتا ہے ۔
”آشوب سندھ اور اردو فکشن“ میں مظہر جمیل نے اردو فکشن کے ذریعے سیاسی ‘تہذیبی اور سماجی زندگی کو دیکھنے کاچلن اختیار کیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ وہ تخلیقات کے تجزیے بھی کرتے چلے گئے اردو فکشن کے ساتھ تخلیقات کی تفہیم کے اس قرینے نے اسے ایک اہم تنقیدی حوالہ بنا دیا تھا ۔ جدید سندھی ادب کی تاریخ لکھتے ہوئے بھی یہی پیمانہ مظہر جمیل کے پیش نظر رہا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ میں اسے صرف سندھی ادب کی تاریخ نہیں سمجھتا اسے تنقید کی نہایت اہم کتاب بھی گردانتا ہوں ۔
کتاب کے پہلے دوابواب میں سندھ کا معاشرتی‘ تہذیبی اور تاریخی تناظر مفصل بیان ہواہے ۔ اس کتاب میں وادی مہران کی صدیوں پر پھیلی تاریخ کے بیان کا مقصد مصنف نے کتاب کی ابتدائی سطور میں ہی واضع کر دیا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ :
”ہر دور کاادب معاصرانہ زندگی ‘ معاشرتی عوامل‘ انسانی گروہوں اور قبائل کے سماجی تفاعل ‘ اجتماعی خوابوں ‘ امنگوں‘ فتوحات اور محرومیوں کا نہ صرف حساس ترجمان اور صورت گر ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی سطح پر سماجی سرگرمیوں کا فعال حصہ بن جاتا ہے “
اس ایقان نے مظہر جمیل کو حوصلہ دیا ہے کہ وہ زبان کے بھید بھنوروں میں الجھ کر رہ جائے اور متن کی ساخت سے آگے بڑھ کر اس کے اندر رواں اس روح تک بھی پہنچ پائے جوفی الاصل اس کی تشکیل کامحرک رہا ہے ۔ وادی سندھ کے تہذیبی عناصر اور تاریخی تسلسل میں دیکھنے کے بعدوہ تیسرے باب میں سندھی زبان ‘ رسم الخط‘ اور لغت سازی کا احاطہ کرتے ہیں ۔ اس باب میں سندھی زبان کی تشکیل کے حوالے سے ان دونوں گروہوں کے نقطہ نظر پر بحث کی گئی جن میں سے ایک سندھی زبان کو خالص سنسکرت سے جوڑتا ہے جبکہ دوسرا آریاﺅں کی قدیم زبانوں کے شجرے میں شامل کرتے ہوئے ‘اسے پراکرت کی بیٹی اور سنسکرت کی نواسی کہتا ہے ۔ اس باب میں پروفیسر لیلو رچمندانی کا یہ کہنا بھی جگہ پا گیا ہے کہ سندھی زبان تو صدیوں سے اپنی اصل صورت میں موجود رہی ہے ۔مصنف نے بتایا ہے کہ سندھی ادب میں بیش تر تصنیف و تالیف کا کام ’وچولی ‘بولی میں ہوا ہے اس لیے وچولی بولی کے لہجے کی چھاپ پورے سندھی ادب پر گہری نظر آتی ہے۔
زبان کی تشکیل کی بحث کے بعد وہ زبانی شعری روایت سے لوک ورثے ‘ عوامی گیتوں ‘ رومانی داستانوں اور قدیم اصناف کے تذکرے تک آتے ہیں اس باب گاہ‘وھیڑہ“سورٹھے‘سٹھے‘رزم نامے‘ نسب نامے‘ گنان‘ھمرچو‘ ہو جمالو‘ ڈھولو ‘ چھلوبیت‘لوریوں اور سنبارو جیسی لوک شاعری کا تذکرہ ہوتا ہے۔ وہ ابیات‘ کافی وائی گیت اور دوہے کے باب میں قابل قدرمعلومات فراہم کرنے کے بعد سندھی زبان کے اس شاعر تک پہنچتے ہیں جس کا احوال سندھ کی ادبی تاریخ میں ذرا تفصیل سے ملتا ہے ۔ میری مراد قاضی قاضن سے ہے جسے قاضی قاون بھی لکھا جاتا ہے ۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے جد امجد شاہ کریم بلڑی والے کے چورانے ابیات کی تفصیل بھی بہم کی گئی ہے۔ شاہ کریم بلڑی والے ‘جن کا زمانہ ارغونوں کا زمانہ بنتا ہے ‘نے شاہ عبداللطیف پر شاعری کا راستہ آسان کیا اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدا ر کیا تھا۔ شاہ عبدا للطیف بھٹائی کے حوالے سے جو معلومات اس کتاب میں ہیں وہ بجا طور پر ایک مستقل تصنیف کے لیے مواد م کے لیے کافی ہیں۔ علی نواز وفائی نے یہ جو کہا تھا”لطیف سند آ’ ائیں سند لطیف آ‘ یعنی لطیف سندھ ہے اور سندھ لطیف ۔ تو بجا کہا تھا کہ سندھی زبان وادب اور روحانیات کے علاقے مےں سب سے زیادہ اور سب سے گہرے اثرات شاہ عبداللطیف بھٹائی کے ہیں۔شاہ صاحب کا زمانہ وہی بنتا ہے جب مغلوں کی مرکزی حکومت کمزور پڑ نے کے بعد سندھ میں ختم ہی ہو گئی تھی ۔ یہاں کلہوڑہ خاندان اقتدار میں تھا اور پورا سندھ ایک جامد معاشرے کانقشہ پیش کرتا تھا۔ شاہ لطیف ایسے زمانے میں اپنی شخصیت اور اپنے کلام سے ایسا جادو جگاتے ہیں کہ سینوں کو منور کرتے چلے جاتے ہیں ۔ سچل سرمست اور شاہ عنایت شہید جھوک والے کے صوفیانہ کا کلام کا تذکرہ ہو یا بھائی چَین رائے لُنڈ سامی کی ویدانتی شاعری کا‘اس کتاب میں نہ صرف قابل قدر معلومات فراہم کی گئی ہیں ان کے کلام کی روح اور اسلوب سے بھی اگاہ کیا گیا ہے ۔اس باب میں قادر بیدل بخش‘ میر عبد الحسین سانگی اور سید ثابت علی شاہ کے نام سے الگ الگ عنوانات کے تحت جدید سندھی ادب کی بنیادوں کو تلاشا گیا ہے۔
فاضل مصنف پانچویں باب سے جدید سندھی ادب کی طرف متوجہ ہوا ۔ سندھی ادب کی رفتار اور رجحانات کوقریب سے جاننے کے لیے اسے چار ادوار میں تقسم کیا گیا۔ عبوری دور ۰۰۷۱ ءمیں شروع ہوتا ہے ۳۵۸۱ءتک چلتا ہے ‘عہد تاسیس ۳۵۸۱ ءسے ۰۰۹۱ءکے زمانے کو قرار دیا گیا ‘ عہد تعمیر کا دورانیہ ۰۰۹۱ سے ۷۴۹۱ یعنی قیام پاکستان تک کا زمانہ ٹھہرا جب کہ عہد جدید قیام پاکستان کے بعد کازمانہ ۔ عبوری اور تاسیسی ادوار کے سندھی ادب کی نمایاں خصوصیات کے مفصل بیان کے بعد عہد تعمیر کے لیے چھٹے اور ساتویںباب میں تخلیق کاروں کے ناموں کے عنوانات قائم کرکے اس عہد کی بھرپور ادبی تاریخ اور تجزیوں کے علاوہ نمونہ ہائے کلام کے اردو تراجم سے اس کتاب کو اس عہد کا آئینہ بنا دیا گیا ۔ اسی باب میں مصنف نے بتایا ہے کہ سندھی نثرکی نئی نئی اصناف اسی زمانے میں سامنے آئیں اور اس کا سبب دوسری زبانوں کے سندھی میں تراجم کو قرار دیا گیا ۔ طبع زاد ناول نگاری‘ ڈراما نگاری‘ یادداشتیں اور سفر نامے لکھنے کا رجحان چلا نکلا اور بہت مقبول ہوا۔ مظہر جمیل نے بتایا ہے کہ مختصر کہانی اور افسانے کی صنف بھی اس عہد میں پیدا ہوئی اور پھر بڑی تیزی سے پھلی پھولی۔ ناول نگاری‘ ڈرامانگاری‘ ناٹک‘ اور افسانے کے الگ الگ عنوانات کے تحت اس عہد میں شائع ہونے والی تصانیف کا بھر پور تذکرہ اس حصے میں جگہ پا گیا ہے۔ مرزا قلیچ بیگ کے اثرات قبول کرکے شروع ہونے والے عہد تعمیر کے جن منتخب نثر نگاروں کے مفصل احوال بیان ہوئے ہیں ان میں ڈاکٹر ھوت چند مول چند گر بخشانی‘ حکیم فتح محمد سیوھانی‘ ‘ جیٹھ مل پرس رام گل راجانی‘ کاکوبھیرومل آڈوانی‘ لعل چند امر ڈنو مل جگتیانی ‘ خلیق مورانی‘ صدیق مسافر‘ محمد صدیق میمن‘مرزا نادر بیگ‘ علامہ عمر بن محمد داﺅد پوتہ‘ نارائن داس میورام بھنبھانی‘ صاحب سنگھ چندا سنگھ شاہانی‘ میلا رام منگت واسوانی‘ عثمان علی انصاری‘ محمد دین وفائی‘ آسانند مامتورا‘ امر لعل ھنگورانی‘ محمد عثمان ڈیپلانی‘ عطا حسین شاہ موسوی‘عبدالحسین شاہ موسوی اور محمد اسماعیل عرسانی شامل ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد کے عہد کو فاضل مصنف نے رجحانات و میلانات کے سیل رواں کا زمانہ قرار دیا گیا ہے اوریہی وہ عرصہ ہے جسے جدید سندھی ادب کا دورانیہ کہا گیا ہے ۔ تاہم جدید سندھی ادب پر بات کرنے سے پہلے سندھ کے تہذیبی تناظر میں ہوچکے کام اور اس کے اثرات کو گہرائی سے جانچتے ہوئے ان زیریں محرکات کوبھی تلاش کیا گیا جو نئے ادب کی نمو کا باعث اور جواز ہوئے ۔ مصنف کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے آس پاس اور اس کے بعد سندھی شاعری کا نیا لب ولہجہ بننے لگا تھا۔ نئے موضوعات‘ مسائل اور انداز شاعرانہ اظہار پانے لگے تھے۔ اس مدت میں افسانہ ناول اور ڈرامہ میں نئے نئے تجربات ہوئے جس نے سندھی ادب کو ثروت مند کر دیا۔ قیام پاکستان کے بعد فوری طور پر سامنے آنے والی نسل میں نمایاں ترین نام شیخ ایاز کا تھا ‘ لہذا شیخ ایاز کی شاعری اور نثر کااس کتاب میں بھر پور احاطہ ملتا ہے ۔ تقسیم کے آس پاس جو لوگ لکھ رہے تھے ان میں شیخ عبدالرزاق سے لے کر میراں محمد شاہ ‘ محمد ہاشم مخلص‘ حاجی محمود خان اور برکت علی آزاد تک بیسیوں اہم لوگوں کے کام سے اسی حصے میں تعارف ہوتا ہے اور پھر اس کارواں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔ جیسے مخدوم طالب المولی‘ نیاز ہمایوں ‘ ایاز قادری جمال ابڑو‘ شمشیر الحیدری‘ تنویر عباسی جیسے اہم تخلیق کارہوںیا۵۵۹۱ سے ستر کے عرصے اور پھر بعدازاں اپنا مقام بنانے والی نسل ‘چاہے ان میں ترقی پسند تھے یا قومیت پرست ‘ روایت کے ساتھ خلوص سے جڑے ہوئے لو گ تھے یا جدیدیت پسنداور تخلیقی عمل کو تمام وقتی رویوں اور ہنگامی رجحانات سے الگ رکھنے والے تخلیق کار ‘تمام کا تذکرہ ان کے تخلیقی رویوں کے ساتھ اس کتاب کا حصہ ہو گیا ہے ۔جدید سندھی شاعری کے کیا خدوخال نکلے اور وہ کون سے موضوعات تھے جو اسے مرغوب رہے اس کتاب کے ذریعے اس سب کا مطالعہ بہت اہم ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں سندھی زبان میں سرحد کے پار کیا ہوا اور کیا کچھ لکھا جارہا وہ بھی اس کتاب کے قاری کے لیے بہم کر دیا گیا ہے۔
یہیں مجھے سندھی فکشن کا تذکرہ کرنا ہے جس کا مطالعہ میرے لیے بہت دلچسپی لیے ہوئے تھا۔ سندھی فکشن کا یہ تذکرہ کتاب کے ابتدائی صفحات سے شروع ہوکر باقی اصناف کے ساتھ ساتھ آخر تک چلتا ہے۔ سومروں کے زمانے کے روایتی قصے کہانیاں اور عشق ومحبت کی داستانیں ہوں یاپھر مرہٹی ‘ بنگالی ‘اردو ‘انگریزی اور دیگر زبانوں سے سندھی میں فکشن کے تراجم کا ارتقائی دور یا پھر نئی طبع زاد کہانی کا جدید زمانہ ‘کوئی بھی ایسا گوشہ نہیں رہ جاتا جسے اس کتاب کے مرتب نے ان چھوا چھوڑ دیا ہو۔ یوں یہ کتاب سندھی فکشن کی ایک مستند تاریخ بھی ہو گئی ہے۔ میں فکشن کے ایک طالب علم کی حیثیت سے سمجھتا ہوں کہ سندھی ادب کے ساتھ ساتھ اردو والوں کے لیے بھی یہ ایسا اہم کام ہے جس کے اردو فکشن پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ سندھی فکشن میرے لیے حیرت کا ایسا دریچہ ثابت ہوا ہے جو اس کتاب میں درنیم کی طرح کھل گیا ہے ‘ یوں تجسس کی وہ صورت پیدا ہو گئی ہے جس کے زیر اثر سندھی فکشن کو مزید توجہ سے پڑھا جائے گااور وہاں کے آدمی کی حسیات کو بھی اردو کے مجموعی مزاج کا حصہ بنا لیا جائے گا ۔
سید مظہر جمیل نے سندھی افسانے کے پہلے دور میں مرزا قلیچ بیگ کو بہت اہم گردانا ہے جس کے قصوں اور کہانیوں جیسے مضامین نے افسانے کے لیے فضا تیا ر کی۔ سندھی افسانے کے سامنے بھی اردو افسانے کی طرح درآمدہ شارٹ اسٹوری کا ماڈل تھا ۔ اس کے تشکیلی دور میں جہاں موپساں‘ چیخوف‘ گورکی‘ اوہنری‘ ہیمنگ وے‘ ٹالسٹائی‘ خلیل جبران ‘ ٹیگور وغیرہ کے سندھی میں تراجم ہوئے وہیں بعد میں پریم چند‘ کرشن چندر‘ منٹو‘ خواجہ احمد عباس‘ عصمت چغتائی ‘ راجندر سنگھ بیدی کو بھی ترجمہ کیا گیااور اس کے اثرات سندھی فکشن نے قبول کئے۔ سندھی افسانے میں سماجی حقیقت نگاری کادور ۰۳۹۱ سے شروع ہوتا ہے۲۴۹۱ میں ترقی پسند افسانوں کا پہلا مجموعہ ”سرد آہوں (گوبند پنجابی) کے نام سے منظر عام پر آیا جس میں غریب عوام مزدور طبقے اور کسانوں کے مسائل کو افسانوں کا موضوع بنایا گیا تھا ۔ یہیں شیخ ایاز کی کہانیوں کے۶۴۹۱ءمیں شائع ہونے والے مجموعے ”سفید وحشی“ کا ذکر بطور خاص کرنا چاہوں گا جو اسی عنون سے کتاب میں شامل ہوا اور جو کتاب کی ضبطی کی وجہ ٹھہرا ۔ مظہر جمیل نے شیخ ایاز کے اس مجموعے کو سندھی افسانوں کا ایسا پہلا مجموعہ قرار دیا ہے جسے باغیانہ قرار دے کر پابندی لگائی گئی۔ مظر جمیل کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان تک سندھی افسانہ کم و بیش نصف صدی کی مسافت طے کر چکا تھا ۔
سندھی افسانے کے جدید عہد کا ابتدائی مزاج حقیقت نگاری کی صورت میں متعین ہوتا ہے جس میں رفتہ رفتہ ترقی پسندانہ سوچ اور مزاحمتی رویہ نمایاں ہوتا چلا گیا ۔ سندھی افسانے کا ہیرو وہی غریب ‘ مفلس ‘ بے چارگی کا مارا ہوا اور آگ میں تپا ہوا ہاری اور کسان ہے جو صدیوں سے زمین کا سینہ چیر کر رزق کا ڈھیر لگاتا چلا آتا ہے۔ سندھی فکشن کا دوسرا اہم کردار جسے مظہر جمیل نے شناخت کیا وہ وہاں کا وڈیرا ‘جاگیردار ہے جو اپنی خونی انگلیوں سے فطرت کے پیدا کئے ہوئے وسائل کو غاصبانہ انداز میں نوچ نوچ کر کھا رہا ہے ۔ شرافت اور نیکی کے روپ میں مکروہ کرداروں اور اپنے مطلب کے لیے ظلم کے جانب دار بن جانے والے سندھی فکشن کا تیسرا اہم کردار ہو گیا ہے ۔اسی طرح غریب الدیار سفید پوش بابو‘ اسکولوں میں پڑھانے والے مدرس‘ کالجوں میں پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیاں اور اپنے اپنے مردوں کے ساتھ وفا کے رشتے کے ساتھ بندھی ہوئی عورتیں سندھی فکشن کے اہم کرداروں کی صورت میں روپ بدل بدل ظاہر ہوتے ہیں۔ سندھی کی تہذیبی روایت ‘ دیہی زندگی اور معاشرہ سندھی کہانی کا منظر نامہ بناتے ہیں جبکہ سندھی قومیت کی بازیافت‘ مزاحمت‘ اور احتجاج سندھی کہانیوں کا ایک نمایاں موضوع ہے ۔ سید مظہر جمیل نے اس باب میں امر جلیل ‘نجم عباسی ‘ غلام ربانی آگرو‘ عبد القادر جونیجو ‘سراج میمن‘ ایاز قادری‘ رشید بھٹی‘ حفیظ شیخ‘ بشیر موریانی‘ رشید اخوند‘ ابن حیات پنھور ‘ رسول بخش پلیجو وغیرہ کی کہانیوں سے مثالیں دے کر اپنا مقدمہ قائم کیا ہے۔
آگے چل کر جدید افسانے کے بنیاد گزاروں میں جمال ابڑو‘ شیخ ابراہیم خلیل ‘ لطف اللہ بدوی‘ حمید سندھی‘ مقبول صدیقی ‘ مراز مراد علی ‘ علی احمد بروہی‘ جمال رند اور خواجہ سلیم وغیرہ کا تذکرہ آتا ہے ۔ سندھی افسانے پر نئے نئے میلانات کے در وا کرنے والوں کی ذیل میں مظہر جمیل نے مذکورہ افسانہ نگاروں کے علاوہ آغا سلیم‘منیر احمد مانک چاندیو‘ مہتاب محبوب‘ امر جلیل‘نسیم کھرل ‘ رسول میمن ‘ غلام نبی مغل‘ طارق اشرف‘ عبدالحق عالمانی‘ بیدل مسرور‘ نور عباسی‘ زیب بھٹی اور نور الہدی شاہ کا بھر پور ذکر کیا ہے۔ یوں دیکھیں تو جدیدسندھی ا فسانے کے تین ادوار بنتے ہیں ۷۴۹۱ سے ۰۶۹۱ کا زمانہ ‘ جس میں تخلیقی جوش ہر کہیں ابلتا ہوا محسوس ہوتا تھا اور جس میں سینکڑوں کی تعداد میں افسانوں کے مجموعے شائع ہوئے ۔ ۰۶۹۱ سے ۵۷۹۱ کا زمانہ ‘ سندھی افسانے میں رجحانات کی تبدیلیوں کا زمانہ ہے ۔ جب کہ بعد کے زمانے میں ذات کائنات میں تحلیل ہوگئی ہے اور کائنات ذات کے اندر سماتی ہوئی محسوس ہوتی ہے
غرض شاعری ہو یا افسانہ ‘ ناول ہو یا سوانحی ادب اور دوسری اصناف سندھی زبان ہو یا سندھی تہذیب کی کروٹیں سب کچھ اس کتاب ایک سلیقے سے حصہ ہوگیا ہے ۔ صاحب‘ جب سید مظہر جمیل کی کتاب”آشوب سندھ اور اردو فکشن‘ ‘ آئی تھی تو میں پہلی بار مصنف کی طرف متوجہ ہوا تھا ‘ اور حیران ہوا تھا کہ یہ شخص کہاں چھپا رہا ‘ اتنی محنت اور اپنے کام کے ساتھ اتنا بے پناہ خلوص اس نئے زمانے میں اس نے کیسے افورڈ کر لیا ۔ اب” جدید سندھی ادب“ کی اس ضخیم اور معتبر تاریخ کو دیکھ کر حیرتیںایک بار پھر مجھ پر ٹوٹ برسی ہے کہ اتنا اہم کام اس نے تن تنہا کیسے کر لیا ایسے کام تو اداروں کے کرنے کے ہوتے ہیں ۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سندھی ادب کے حوالے سے یہ کتاب آئندہ بنیادی مآخد کے طور پر استعمال ہوگی کہ سندھی ادب کے حوالے سے اس سطح کا کام قبل ازیں اردو کیا خود سندھی زبان میں بھی نہیں ہوا ۔اب اگر فہمیدہ ریاض نے یہ کہا ہے کہ سید مظہر جمیل کو اس پر پی ایچ ڈی کی ڈگری ملنی چاہیے تو یہ مطالبہ قطعا بے جا بھی نہیں ہے۔
٭٭٭


ماں, میں تھک گیا ہوں

محمد حمید شاہد
”ماں! میں تھک گیا ہوں“
وقار بن الہٰی کی قابل توجہ خود نوشت

معروف افسانہ نگاروقار بن الہٰی کی خود نوشت سوانح عمری ” ماں !میں تھک گیا ہوں“ پر بات کرنے جارہا ہوں تو مشفق خواجہ کی کہی ہوئی بات راستہ روک کر کھڑی ہو گئی ہے ۔ صاحب وہ بھی عجب ڈھب کا آدمی تھا‘ آپ بیتی کی صنف کے بارے میں ماننے کو تیار ہی نہ تھا کہ اس میںسچ لکھا جا سکتا ہے ۔ ”سخن در سخن “ میں توایک جگہ صاف صاف لکھ دیا :
” آپ بیتی ایک عجیب و غریب صنف ادب ہے جس کا موضوع بظاہر تو لکھنے والے کی اپنی ذات ہوتی ہے لیکن بحث عموماً دوسروں کے کردار سے کی جاتی ہے ۔ آپ بیتی کو یادوں اور یادداشتوںکا مجموعہ کہا جاتا ہے لیکن آپ بیتی میں یادوں اور یادداشتوں کی ترمیم شدہ یا حسب منشا صورت ہی نظر آتی ہے ۔ حافظہ اول تو کام نہیں کرتا اور اگر کرتا ہے تو مصنف کی مرضی کے مطابق مواد فراہم کرتا ہے “
ایک مشفق خواجہ ہی نہیں تھے جو یوں اس باب میں بدگمان تھے دوستوئیفسکی نے بھی notes from the undergroundمیں لگ بھگ یہی موقف اختیار کیا ‘اس کا کہنا تھا :
”سچ اور حقیقت پر مشتمل آپ بیتی لکھنا ممکن ہی نہیں ہے ۔ کیوں کہ اپنی بات بڑھا چڑھا کر لکھنا انسانی سرشت کا حصہ ہے“
وہی ”اتنی بھی نہ بڑھا پاکیءداماں کی حکایت“ والی بات۔
کسی بھی فرد کو یہاں یہ سوال پریشان کرسکتا ہے کہ آخروقار جیسے افسانے کی روایت سے جڑ کرلکھنے والے سیدھے ‘سچے اور کھرے آدمی پرکیا افتاد ٹوٹ پڑی کہ اس نے صاف سجھائی دینے والے راستے پر گامزن افسانوں کو لکھنا کافی نہ جانا اور ایسی جھوٹی ‘فریبی اورچتر چالاک صنف ادب سے رسم و راہ کو بڑھالیا جو دعوی تو سچ کا کرتی ہے مگربہ باطن جارج برناڈ شا کے بقول کسی بھی استثنا کے بغیرجھوٹ کا پلندہ ہوجاتی ہے ۔ یادرہے برنارڈ شا نے sixteen self sketches میں آپ بیتیوں کو ایسے جھوٹ کاپلندہ قرار دیا تھا جس میں دروغ گوئی اتفاقی نہیں ہوتی‘ نیت باندھ کرکی جاتی ہے۔
صاحب! وہ سوال جو آپ کو پریشان کر رہا ہے‘ اس کا جواب بھی” اِسی نیت کے باندھنے “میں چھپا ہوا ہے ۔ نیت اور شخصیت کے اپنے آہنگ میں ایک پراسرار سا تعلق ہوتا ہے ۔ اس تعلق کو کھوجے اور سمجھے بغیر معاملے کی اصل کو نہیں پایا جاسکتا۔ میں نے یوں کیا ہے کہ وہ سوال جو اب آپ کو پریشان کر رہا ہے اسے اس سوال سے جوڑ لیاہے جوچندبرس پہلے اس کی افسانہ نگاری پر بات کرتے ہوئے مجھے پریشان کیاکرتاتھا۔ وہی شہرت بٹنے کے زمانے میں وقار کے شہرت نہ سمیٹنے والا سوال ؟۔ تب میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ ہو نہ ہو وہ اپنے عہد سے پَچھڑا ہوا افسانہ نگارہے اور اب میرا کہنا یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے سے جڑا ہو آدمی ہے ۔ یہ دونوں متضاد باتیں نہیں ہیں جب میں نے اپنے عہد کے لوگوں سے پَچھڑنے کی بات کی تھی توکہنا یہ چاہا تھا کہ اس نے نئے زمانے کے وتیرے کو لائق اعتنا نہ جانا تھا اور اب وہ جس زمانے سے جڑا ہوا نظر آتا ہے میری نظر میں یہ اس کا محبوب تہذیبی زمانہ ہے۔ ایسا زمانہ جس کی اپنی مستحکم روایات تھیں اور ایسی روشن اقدار تھیں جن پر معاشرہ قائم تھا یا بہتر طور پر آگے بڑھ سکتا تھا وہ روایات اور وہ اقدار جو اس نئے زمانے کے دھوپ زادوں نے برف کے باٹ جیسی بنادی گئی ہیں ۔
دوسرے معنوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اپنی شخصیت کے آہنگ کے اعتبار سے وقار بن الہٰی کو ایسا آدمی کہا ہی نہیں جا سکتا کہ نیت باندھ کر جھوٹ لکھ پائے۔ میں نے اس کی ساری کہانیاں پڑھ رکھی ہیں اور اسی برتے پر کہہ سکتا ہوں کہ وہ فکشن کے ناسچ کو عام زندگی کی صداقتوں سے بڑا سچ سمجھتا رہا ہے ۔ تاہم وہ اتنا اڑیل سچا اور نیت کا کھرا ہے کہ اپنی زندگی سے منسوب سچ کے قد کو بڑھانے کے لیے فکشن کا سہارا لینا مناسب نہیں جانا لہذا اس نے ” جیسا ہے جہاں ہے“ کی بنیاد پر ‘اسے جوں کا توں‘ بیان کرنے کے لیے آپ بیتی کا سہارا لے لیا ہے۔ اس بات کو صاف صاف سمجھانے کے لیے پونے سات سو صفحات پرپھیلی اپنی زندگی کی کہانی کے عین آغازمیں اس نے خود ہی ایک سوال اٹھایا ہے ‘ یہی کہ:
” میں جب اپنی داستان لکھنے کا ارادہ کر رہا تھا تو یہ سوال بھی میرے ذہن میں کلبلا رہا تھا ۔ لگ بھگ دوسو افسانے لکھنے کے بعد کیا اب بھی ضرورت ہے کہ میں اپنی داستان لکھوں ؟“
اس سوال کے بعد اس نے اردگرد کی باتوں کے ذریعے ہم پر ”فکشن “اور” آپ بیتی “کے فرق کو کچھ یوں واضح کرنے کی کوشش کی کہ فکشن زندگی کا ایساسچ ہے جس میں ”زیب داستاں“ کے لیے جھوٹ ملایا جاسکتا ہے اور جس کے باعث وہ ایک فرد کی کہانی نہیں رہتا ایک نوع کے انسانوں کی علامت بن جاتا ہے ۔ جب کہ” آپ بیتی“ ایک فرد کی زندگی کے خالص تجربوں پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ آخر تک ایک فرد کے تجربوں کی کہانی رہتی ہے ‘ جس طرح اس پر گزری اور جس طرح اس نے دوسروں کے بارے گمان کیا یا فیصلے دیے۔ وقار بن الہٰی نے اپنی زندگی کے خالص سچ کو لکھا ‘ اور جس طرح کا وہ ٹیڑھا آدمی ہے ‘زمانے سے بھڑنے والا تو اس جھوٹ پرور صنف ادب کو بھی انتہائی سفاکی سے سچ دکھانے پر مجبور کیاہے۔ دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ اس نے اپنے دلکش اسلوب سے سچ کو بھی اس چٹخارے کا سا بنا دیا ہے جو کچھ سوانح نگاروںکے ہاں قاری کی توجہ حاصل کرنے کے لیے جنس سے لتھڑا ہوا لیس دار بیانیہ بنااوربعض کے ہاں ایسی عقیدت جو عقیدے کا تنا کاٹ کر رکھ دیتی ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ اپنی ذات کو بڑا بتانے کے لیے دوسروں کی قامت پرتیکھے جملوں کی دُھول اُڑانے والوں یا ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر سنسنی خیز واقعات یکجا کرنے اور اگر ایسے واقعات نہ مل رہے ہوں توخود سے تراش لینے والوں کو آپ بیتی کی صنف بہت محبوب رہی ہے۔ تاہم یہ بھی واقعہ ہے کہ اپنی زندگی کے تجربات آنے والی نسلوں کو بعینہ منتقل کرنے کی للک رکھنے والوں کو اس کے علاوہ کوئی اور صنف ادب سہارا بھی نہیں دیتی۔ صاحب ‘عبدالمجید سالک کی” سرگزشت“عبدالماجددریاآبادی کی ”آپ بیتی“ رشید احمدصدیقی کی ”آشفتہ بنانی میری“ اختر حسین رائے پوری کی ”گرد ِسفر“ میرزا ادیب کی ”مٹی کا دیا“ قدرت اللہ شہاب کی ”شہاب نامہ“ جوش ملیح آبادی کی”یادوں کی بارات“ احسان دانش کی ”جہان دانش“ ممتاز مفتی کی ناول نما” علی پور کا ایلی“ اور” الکھ نگری“ حمید نسیم کی ”ناممکن کی جستجو“ مشتاق یوسفی کی ”زرگزشت“ مختار مسعود کی ”لوح ایام“ انتظار حسین کی ” یادوں کا دھواں“ کشور ناہید کی ”بری عورت کی کتھا“ جاوید شاہین کی ”میرے ماہ و سال“ سے لے کر رشید امجد کی ”تمنا بے تاب“ تک یہ جو آپ بیتیوں کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے تو اس کے دھیان میں آتے ہی سچ جھوٹ کی آنکھ مچولی بھی لطف دے جاتی ہے۔ اسی سلسلے کی کتابوں میں وقار بن الہٰی کی زندگی کی کتاب یوں مختلف نظر آتی ہے کہ اپنی کہانی کے عین آغاز سے اختتام تک ‘ جہاں موقع ملا اس نے اپنی ذات کو بھی خوب خوب طنز کا نشانہ بنایا ہے اور پھر جہاں جہاں اسے خرابی نظر آئی ہے وہیں وہیں اس نے معاشرے کے بخیے بھی ادھیڑ کر رکھ دیے ہیں ۔
وقار بن الہٰی نے ممکنہ حد تک کوشش کی ہے کہ اس کی زندگی کی کہانی یوں چلے جیسے اس پر زندگی بیتتی رہی ہے‘ اپنی زمانی ترتیب کے ساتھ ‘تاہم جہاں کہیں بیانیے نے کسی اکھاڑ پچھاڑ اور رخنے کے بغیراسے اجازت دی اس نے اس ترتیب میں گنجائش پیدا کرکے ماضی کے قصے یا آنے والے وقت سے اپنے حصے کا پیوندیوں لگایا کہ دیکھے جانے والا منظراور زیادہ بامعنی ہوگیا ۔ مثلاً دیکھیے ہجرت کا چشم دید واقعہ بیان کرکے آج تک کے طرزعمل کے تناظر میں اس نے ہمیں کیسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے:
”دس گیارہ بجے ہوں گے گاڑی فیروز پور پہنچ کر رُکی .... دوسروں کی دیکھا دیکھی میں نے بھی اپنی کھڑکی تھوڑی سی اوپر اُٹھائی تو دیکھا ‘ سامنے مرکزی پلیٹ فارم بالکل ویران پڑا ہے.... پھر دوسکھ کرپانیں لہراتے پلیٹ فارم پر نمودار ہوئے‘ انہوں نے ایک مسلم نوجوان لکڑی کو پکڑ رکھا تھا۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے پہلے اُس لڑکی کے کپڑے چاک کیے‘ پھر اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے گئے۔ جب بھی ایک عضو کا ٹتے تو اُسے ہماری گاڑی کی طرف اُچھال دیتےاور دونوں چیخ کر کہتے:”یہ رہا تمہارا پاکستان“ ....بعد کے پچاس برسوں میں ہم جو کچھ کرتے آئے ہیں‘ہر کسی سے میرا یہ پوچھنے کو جی چاہتا ہے....”اُس بچی کے جسم کے ٹکڑے کون جوڑے گا؟“
تلخ حقیقتوں کے بیان میں وہ یک رُخا نہیں رہا اسی دورانیے میں ایک اور منظر جو اس نے لاہور پلیٹ فارم پر دیکھا ‘صورت واقعہ کو ٹھیک ٹھیک سمجھانے کے لیے اُسے بھی بیان کرنا مناسب جانا ہے:
” ....سب میں خون اور لاشوں کے سوا کچھ نہ تھا ‘ جیسے ان گاڑیوں کو واش لائنوں پر خون سے دھویا گیا تھا۔ پلیٹ فارم پر موت کا رقص تو جاری و ساری تھا ہی‘تعفن بھی بے پناہ تھا۔ ان گاڑیوں میں وہ دوتین گاڑیاں بھی شامل تھیں ‘ جو بھارت جانے کے لیے یہاں تک پہنچ پائی تھیں‘ ان کے اندر بھی خون ہی خون تھا“
اچھا ‘ ایک اور واقعہ دیکھیے ‘ بالکل مختلف مزاج کا مگراب ہمارے ہاں رشتوں کی صورت جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس کے باب میں یہ دلچسپ واقعہ کئی سوال اُٹھاتا چلا جاتا ہے۔
” ....میرے دادا جان کو بھی اس دن کا بہت انتظار تھا کہ ان کا پہلا پوتا بیاہا جائے گا۔ صبح سویرے سب سے پہلے انہیں تیار کیا گیا ۔ انہوں نے نیا جوتا اور نیا جوڑا پہنا اور تیار ہو کر باہردھوپ میں چارپائی پر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد دوسرے لوگ تیار ہوئے اور بارات پہنچ گئی جہاں اسے پہنچنا تھا....اور تاریکی اترنے سے تھوڑی دیر پہلے دُلہن کو لیے سب واپس پہنچے تو یہ دیکھ کر جیسے سانس حلق میں ہی اٹک گئے کہ دادا جان تو وہیں بیٹھے تھے جہاں انہیں تیار کرکے صبح بٹھایا گیا تھا.... والد بار بار ماتھا پیٹتے رہے کہ اگر انہیں جاتے ہوئے بھول گئے تھے تو وہاں جاکر بھی ان کی یاد کیوں نہ آئی....ڈرتے ڈرتے دادا کے قریب گئے ....قدرے شرمندہ اور کچھ گھگھیا کر ان سے معافی مانگی گئی تو وہ ہنس دیے ۔ ” مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ تم لوگ میرے ساتھ یہ حرکت کرو گے۔” معافی وعافی کو چھوڑو ایسا ہو ہی جاتا ہے ۔ مبارک ہواور مجھے جلدی سے حقہ دو صبح سے ایک کش بھی اندر نہیں گیا“ انہوں نے کس فراخ دلی سے ساری بات کو پی لیا۔ اب سوچتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے ‘ یہ جوہر اسی نسل کے لوگوں میں تھا‘ میں تو شاید ایسا نہ کر سکوں “
وقار بن الہی کو ان افسانہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے جن کے ہاں دفتری زندگی کو خوبی سے افسانے کا موضوع بنایا گیا ہے ۔ اپنی آپ بیتی میں بھی اس نے وزارتوں اور دفاتر کی تکلیف دہ صورت حال کا نقشہ بہت خوبی سے کھینچا ہے اس باب میں وزارت تعلیم کے ایک سیکشن آفیسر کاصرف ایک واقعہ:
” دفتر میں وہ ہمیشہ نو بجے کے بعد آتے تھے۔ علیک سلیک کے بعد اخبار اٹھاتے اور مطالعے میں غرق ہوجاتے۔ اس دوران کو چٹپٹا ٹکڑا دکھائی دیتا تو مجھے بھی محظوظ دیتے‘ فون آجاتا تو سن لیتےاور ترت جواب دینے کا وعدہ کر لیتے۔ گیارہ بجے کے قریب اٹھتے ‘ اپنی الماری کو چابی لگا کر فائلیں نکالتےاور سب کی سب اپنے دائیں ہاتھ رکھ کر ‘ ہاتھ جھاڑتے اور بیٹھ جاتے۔ ایک ایک فائل اٹھاتے ‘ اسے بائیں طرف رکھتے جاتے ‘ ساتھ ساتھ بڑبڑاتے بھی جاتے” اس پر نوٹ لکھنا ہے.... ٹھیک....یہ جواب آج ضروری ہے....ہوں....اس پر ریمائنڈر دینا ہے‘سسرے بھنگ پی کر سوجاتے ہیں‘جواب ہی نہیں دیتے.... یہ ....ہاں .... یہ جواب نہ بھی گیا تو کیا ہوا‘ کون سی قیامت آجائے گی.... اور اس میں .... پتہ نہیں ڈپٹی کیا چاہتے ہیں؟“ دائیں طرف کا ڈھیربائیں منتقل کرکے پھر ہاتھ جھاڑتے ‘ میری طرف دیکھتے ” ہاں تو میاں ‘ذرا فون کا خیال رکھنا ‘ساڑھے گیارہ بج رہے ہیں ‘میں چائے پی آو¿ں ....“
غرض چائے پی کر پلٹنے ‘ ادھر ادھر فون کرنے ‘لنچ بریک اور نماز کے وقفوں کو انجوائے کرنے اور پھر چھٹی سے ذرا پہلے فائلوں کے ڈھیر کو پھر الماری میں بند کرنے کے اس واقعے میں وقار نے قومی اداروں میں کام چوری اور حرام خوری کی جو تصویر بنائی ہے اس میں سے چیخ کی طرح پھوٹتاہمارے اداروں کے زوال اور انہدام کا نوحہ بھی پوری طرح سنائی دے گیا ہے۔
وقار بن الہی کو کئی ملک دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ اس نے وہاں جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا اسے بھی اپنے قاری کو منتقل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ امریکہ کے مشاہدات کی بابت اس کہنا ہے کہ :
” ....دوسرے ملکوں کی کئی باتوں کی طرح امریکہ بہادر کی بھی کئی باتیں عجیب لگتی ہیں مثلاً کالوں کو صرف دو ہی کام ہیں‘ گانا بجانا یا دھوپ میں بیٹھ کر بھیک مانگنا ۔پڑھ لکھ کر اگر کوئی بھلے مانس اچھی ملازمت پر فائز ہو بھی چکا ہے تو وہ خاموشی کو ہی ترجیح دیتا ہے‘لب نہیں کھولتا.... سفید چمڑی والے دنیا دنیا کے کونے کونے سے اور صدیوں سے وہاں اکٹھے ہوتے رہے ہیں لیکن کام کرتے ہوئے انہیں بھی یوں لگتا ہے جیسے موت کے منہ میں جارہے ہیں۔“
وقار کے قلم اس باب میں خوب جوہر دکھاتا جس میں اس نے اپنی ماں کا ذکرکیا۔یہاں پورے متن کی کیمسٹری تک بدل جاتی ہے۔ اسی باب میں اس نے عورت کے مختلف روپ سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے ۔ عورت کے کچھ روپ وہ اپنی آپ بیتی کے دوسرے حصوں میں بھی دکھا چکا ہے تاہم ماں کے روپ میں اس نے جس عورت کی تصویر بنائی ہے وہ امر ہو گئی ہے۔ عین گڑیوں سے کھیلنے والی عمر میں دلہن بن جانے والی لڑکی‘ جو ایک بیٹے کو جنم دے چکی تو اس کا شوہر فوج میں چلا گیا ‘جسے جاپانیوں نے قید کر لیاتھا۔ بلا کی قناعت پسند‘ صابر شاکر‘ جو ملا کھا لیا ‘ جو میسر آیا پہن لیا۔ بچوں کے انتظار میں بھکی راہ تکنے والی ماں‘ اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کے منہ میں لقمے ڈالنے والی ماں۔ اس عورت کی کہانی جوں جوں آگے بڑھتی جاتی ہے عورت کا قد بلند ہوتا جاتا ہے ۔ عورت واقعی لائق تکریم ہے۔
وقار کی اس کہانی میں ہجرت کا تلخ تجربہ ہے ‘ اپنوں کی لوٹ مار کا المیہ ہے‘ تعلیمی اداروں سے پھوٹنے والے تاریکیاں ہیں اور طاقت کی راہداریوں میں قومی وسائل کو بے دردی سے ضائع کرنے والوں کا قصہ بھی ہے۔ یہ آپ بیتی تو ہے ہی مگر ساتھ ہی ساتھ کئی ملکوں کا سفر نامہ بھی ہے ۔ کئی سفاک حقیقتوں کا فسانہ اورکئی شخصیات کا ایسا دلکش خاکہ ‘ کہ بیانےے میں جمالیاتی قدر کا وصف نمایاں ہوتا چلا گیا ہے ۔ جہاں اس نے تنقید کرنا چاہی وہاںطنز کیا‘ جہاں مشورہ دینا چاہا وہاں اس کے بیان میں اخلاص چھلکنے لگا‘ جہاںانسانی رشتوں کا حوالہ آیا وہاںاس کے قلم نے جذبوں کوایسی جہت دی کہ پڑھنے والے کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور یہی بات نہ صرف اس خوب صورت کتاب کو قابل مطالعہ بنا تی ہے اسے ایک اہم اور قابل توجہ خود نوشت سوانح عمری بھی بنا دیتی ہے۔ ایک ایسی زندگی کی کہانی جو وقار بن الہٰی نے جھیلی مگر جس میں ہماری قومی ‘سیاسی اور تہذیبی زندگی بھی جھلک دے گئی ہے ۔
٭٭٭

عاصم بٹ کی فکشن کی تخلیقی فضا

محمد حمید شاہد
عاصم بٹ کی فکشن کی تخلیقی فضا

محمد عاصم بٹ کی فکشن نگاری اس کی ترجمہ کاری سے پھوٹی مگر جلد ہی اپنی جڑوں کی تلاش کی سمت راغب ہوگئی ۔ پہلے وہ عالمی ادب کے تراجم کی طرف متوجہ ہوا اور اسی کے بیچ کسی مہربان لمحے میں تخلیق کی دیوی اس پر مہربان ہوئی اور اس نے کہانی لکھنا شروع کردی ۔ ہم میں سے بعضے جو لگ بھگ اس کے تراجم کے عادی ہی ہو چکے تھے اس کی کہانیوں میں غیر ملکی اثرات تلاش کرنے میں جت گئے ۔ جہاں کہیں جملہ روایتی دھج سے ہٹ کر لکھا ہوا ملا ‘کہہ دیا اس پر تو ترجمہ کی چھوٹ پڑتی ہے ۔ یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ عاصم بٹ کے لیے آغاز ہی میں مشکلات رکھ دی گئی تھیں۔
یہ مشکل تو اس کے اپنے طرز عمل کی زائیدہ تھی ۔ کچھ اور مشکلات بھی تھیں جو گذشتہ ربع صدی میں سامنے آنے والے افسانہ نگاروں کی پیڑھی سے تعلق کی وجہ سے اسے بہرحال درپیش آنا تھیں۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اس نسل کے تخلیقی تجربے سے دوچار ہونے تک افسانہ نگاری کے نام پر شعبدے دکھانے اور راتوں رات مشہور ہونے کا زمانہ لد چکا تھا ۔ اب وہ گروہ بھی میسر نہ تھے جو گرمئی بازار کا سماں باندھے ہوئے تھے ۔ میری مراد ان گروہوں سے ہے جو تنکا اُتارتے اور چھپر رکھ دیتے تھے ۔میر تقی میر کا شعر یاد آتا ہے
لگا آگ پانی کو دوڑے ہے تو
یہ گرمی تری اِس شرارت کے بعد
جب افسانہ نگاری کے نام پر ساری گرمی فقط شرارت اور شعبدہ گری ہو گئی اور تنقید کا منصب اس سے وہ معنی برآمد کرنا ٹھہرا جو اس میں ہوتے ہی نہیں تھے تو وقت کے پہلو بدلتے ہی یہی اوپر سے کیڑوں کی طرح ڈالے گئے معنی عیب ہو گئے۔ عاصم بٹ اپنے افسانوں کو شروع ہی سے اس عیب سے پاک رکھنا چاہتا تھا ا سے اس قاری کی فکر بھی دامن گیر تھی جو اب تک اکتا کر کنارہ کر گیا تھا۔ اس نے اپنے افسانوں کے اکلوتے مجموعے ”اشتہار آدمی اور دوسری کہانیاں“کے آغاز میں دو لفظوں میں یہی قصہ سنا یا ہے :
” ایک وقت تھا ‘ اردو افسانوں کے مجموعوں کی فروخت ادبی کتب میں سب سے زیادہ تھی ۔ آج صورت حال بہت مختلف ہے افسانوی مجموعہ کا ایک ہزار کا ایڈیشن چیونٹی کی رفتار سے فروخت ہوتا ہے ۔اسے قاری ڈھونڈنے پڑتے ہیں “
اور اس سے اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ :
” جب لکھنے والے پڑھنے والوں کو کھو دیتے ہیں تو اس میں زیادہ قصور لکھنے والوں کا ہو تا ہے “
یہ الگ سوال ہے کہ قاری کا کتنا خیال رکھا جانا چاہیئے ۔ تاہم اب ہم سہولت سے اس تخلیقی فضا سے مانوس ہو سکتے ہیں جو عاصم بٹ کا نکتہ نظر‘ اور طرز احساس اسے مہیا کر رہا تھا ۔ سہولت کے لیے ایک دفعہ پھر دہر لیتے ہیں ۔
۱۔ تراجم کا تجربہ اور دساوری فکشن کی فضا جو بہرحال اس کے اندر حلول کرکے اس کی ذات کا جز ہو چکی تھی۔
۲۔ قاری سے تعلق قائم کرنے کے لیے ایسے اسلوب کی تلاش ‘جس پر گزشتہ عرصے کے اس افسانے کا سایہ نہ ہو جس نے قاری کو بدکا دیا تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ عاصم بٹ کے تخلیقی مزاج کو انہی دو حوالوں سے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے ۔ تاہم ان میں دو باتوں کا مزید اضافہ بھی کر لیجئے۔
۳۔ عاصم بٹ کا تخلیقی سطح پر تفکر سے دوچار ہوتے ہوئے بھی تفکر کے نامیاتی وحدت میں ڈھل جانے والی فکر سے مسلسل اور شعوری گریز۔
۴۔ اندرون لاہور کی شہری فضا جو عاصم بٹ کے افسانوں کا عمومی منظر نامہ متشکل کرتی ہے ۔
چھ افسانوں پر مشتمل ”اشتہار آدمی اور دوسری کہانیاں “ کی اشاعت کے ساتھ ہی جن لوگوں نے عاصم بٹ کے بیانئے کو ایک ترجمہ نگار کا بیانیہ قرار دیا تھا‘لگ بھگ اتنے مزید افسانوں اور ایک عدد ناول ” دائرہ“ کی اشاعت کے بعد ان کے اعتراض کی شدت کم ہو گئی ہے ۔ کتاب کے بعد کے افسانوں اور ناول کو سامنے رکھتے ہوئی میں اس کے بیانیے کی قبولیت کی دو وجوہ تک پہنچا ہوں ۔
۱۔ قاری کی تلاش میں فرنٹ سٹالز پر دھڑا دھڑ بکنے والے ڈائجسٹوں کے بیائیے کی بجائے یک سطحی ادبی بیانئے کی طرف مسلسل سفر۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس سفر میں بہت سے مقامات آتے چلے گئے ہیں جہاں اس کا بیانیہ اس سے باغی ہو کر یک سطحی نہیں رہتا دبیز ہو جاتا ہے اس کی سامنے کی ایک مثال اس کا افسانہ ”چالیس برسوں پر محیط ایک لمحہ ہے “ جس میں اس کے بیانئے سے وہ روحانیت بولنے لگی ہے جس سے اس نے شعوری سطح پر ناطہ توڑا ہوا ہے ۔
۲۔ عاصم بٹ کے قاری کا ایک ترجمہ کار کی تخلیقی طورپر کارآمد زبان کو قبول کر لینا تاہم یہ بہت کم تر سطح پر ہوا ہے جس کی وجہ سے زبان کا یہ نیا ذائقہ پوری طرح عاصم کی شناخت نہ بن پایا ۔ میں نے عاصم بٹ کے افسانوں کی کتاب کی اشاعت پر خیال ظاہر کیا تھا کہ اگر اس نے استقلال کے ساتھ جملوں کی کنسٹرکشن کا یہی قرینہ اپنائے رکھا تو اسی سے اس کی الگ شناخت بن سکتی ہے ۔ مگر ہوا یہ ہے کہ عاصم بٹ نے ترجمہ کار کی زبان کو اپنی خوبی اور شناخت بن جانے سے پہلے ہی اسے خامی مان کر بعد کے افسانوں اور ناول میں جملوں کی ساخت کو بدل کر زبان کو بہت حد تک رواں کر لیا ۔
زبان نہیں اور علامت کا استعمال بھی نہیں۔ خواب‘ موت‘بے چہرگی کے استعارے اس نے برتے ضرور مگر انہیں نمایاں عنصر بننے نہ دیا گویا ایک فکری نظام کی تشکیل یا پہلے سے تشکیل شدہ نظام سے وابستگی بھی نہیں‘ تو پھر وہ کیاغالب عُنصر ہے جس سے عاصم کے ہاں تخلیقی فضا متشکل ہوتی ہے‘ صاحب میرے سامنے یہ سوال تھا۔ اور میں نے اس سوال کا اپنے تئیں جواب تلاش کرنے کی سعی کی تو اس نتیجے پر پہنچا کہ جُز و نگاری ۔ یہی جزو نگاری کہیں تو جزُرسی بھی ہو جاتی ہے اور کہیں کہیں افسانہ نگار کو انہیں اجزاءکا رسیا دکھاتی ہے تاہم مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو مان لینا پڑتا ہے کہ افسانہ ہو یا ناول ‘ یہی اجزاءایک واقعے کو متشکل کرتے ہیں اور پھر واقعات جڑ کر ایک افسانے یا ناول کی صورت بناتے ہیں ۔ گویا آپ کہہ سکتے ہیں کہ مواد کے اعتبار سے اجزا کا بیان‘ کہانی کے اعتبار سے واقعات کا بیان اور بعد ازاں ان کا اتصال بنیادی قرینہ بنتا ہے ۔ زبان واقعے کے اجزاءکے بیان کے لیے پینترے بدلتی رہتی ہے تاہم یہ پینترے جملے کی ساخت کے اندر ہوتے ہیں واقعے کے بیان میں انفرادی جملوں کا یہ عجب اپنی الگ شناخت گم کر دیتا ہے اور اجزا واقعے کی صورت گری کرتے ہوئے زبان کو رواں کر دیتے ہیں ۔
جب کہانی میں واقعہ اہم ہو اور واقعے میں جزو پوری توجہ اور اخلاص کا سزاوار ٹھہرے تو بیانیے کا سہج سہج چلنا یقینی ہو جاتا ہے ۔ اس تخلیقی طرز عمل نے عاصم کی کہانیوں میں بطور خاص لاہور کے اندرون کی فضا کواپنی پوری باریکیوں اور خوب صورتوں کے ساتھ زندہ کر دیا ہے ۔ جزو نگاری کے حوالے سے اندرون شہر ( یا میری مراد اندرون لاہور ہی ہے ) کی فضا کے اور اس سے وابستہ و پیوستہ حسیت کے ساتھ ساتھ جو چیز عاصم بٹ کے افسانوں میں نمایاں ہوتی ہے وہ ہے کرداروں کی تشکیل اور ان کے ساتھ وفاداری۔ کہیں کہیں تو کہانی لکھنے کی للک پر کردار نگاری کاچسکا اس قدر حاوی ہو جاتا کہ افسانے کے اندر کہانی کا بہاﺅ تھم جاتا ہے یا پھر سرے سے معدوم ہو جاتا ہے تاہم ایسے میں بہرحال وہ کردار اپنی پوری قامت کے ساتھ سلامت رہتا ہے ۔ جزیات نگاری کے رسیابہت سے لوگوں کے ہاںیہ رویہ خامی کے طور پر نمایاں ہوا ہے مگر عاصم کے افسانوں اور ناول میں نے اسے خوبی بنتے دیکھا ہے اور وہ یوں کہ کہانی کا دائرہ اس کے ہاں اتنا اہم ہوتا ہی نہیں جتنا کہ کردار کی اپنی قامت ۔ اور اس قامت میں اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ قاری کو اسیر کرلے اور اتنا اسیر کیے رکھے کہ کہانی کے بہاﺅ کی سمت دھیان بھی نہ جائے۔
اب رہ گئی قاری کی بات جس کی تلاش کا ہوکا شروع میںعاصم بٹ کو بہت تھا اور جس کو مدنظر رکھ کر اس نے اپنے آغاز کے افسانوں میں ڈائجسٹوں والی زبان کو اپنایا تھا اور جہاں بھی موقع نکل سکا‘ جنس کے موضوع کو لذت کی سطح پر برتا ‘ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس سطح کا قاری اب عاصم کا مسئلہ نہیں رہا ۔ اسے بھی اب باذوق قاری کی تلاش ہے ۔مجھے یہیں آپ کی توجہ عاصم کے ناول ”دائرہ “ کے اختتامیہ کی طرف چاہیئے جہاں امین گل ‘امین گل نہیں رہتا‘ راشد اورآصف ہو جاتا ہے ‘ وہیں جہاں کچھ سجھائی نہیں دیتا ‘ کچھ سنائی نہیں دیتا ‘خواب اور حقیقت میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ اور عین اسی مقام پر میں آپ کو عاصم کے کتاب کے بعد میں لکھے گئے ایک افسانے کی طرف بھی لے جانا چاہتا ہوں ‘جس کا ذکر میں اوپر بھی کر آیا ہوں ‘ وہی جس میں چالیس سال کی عمر پالینے کے بعد غفلت کا پردہ چاک ہوتا ہے اور اپنے باطن سے مابعدالطبیعیاتی سطح پر مکالمے کی صورت نکلتی ہے ‘ یہ دو مثالیں ایسی ہیں کہ فقط کھوئے ہوئے قاری کی تلاش کا مسئلہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے اور اپنے تخلیقی وجود کے اندر بپا تصادم فائق ہو جاتا ہے ۔ یوں میں عاصم بٹ کے وجود کی گہرائی سے جس تبدیلی کی آہٹ ایک مدت سے محسوس کر رہا تھا وہ اس کے لاکھ پہلو بچالینے کے باوصف ‘اب اس کی تخلیق میں بھی ظاہر ہونے لگی ہے جسے میں بہرحال خوش آئند سمجھتا ہوں۔

Saturday, March 21, 2009

لبابہ عباس کے افسانے

محمد حمید شاہد
لبابہ عباس کے افسانے

راجندر سنگھ بیدی کا کہنا تھا کہ افسانے کا کوئی کلیہ قائم نہیں کیا جاسکتا ‘اس کی نظر میں جتنے لکھنے والے تھے ‘ یا پھر جتنی کہانیاں تھی اتنے ہی ان کے لکھنے کے طریقے تھے ۔ دنیا کو اس نے پرانے فلسفیوں کے قول کے مطابق ایک تخیل قرار دیا تھا اور تسلیم کیا تھا کہ ہم جو شروع اور آخر کے انداز میں سوچتے ہیں اس کی حقیقت کو پوری طرح پا ہی نہیں سکتے ۔ صاحب‘ جسے پا نہیں سکتے اس کا دھندلا سا خاکہ تو بنا سکتے ہیں۔ بیدی کا کہنا تھا کہ ’خیال‘ کو’ دام خیال‘ میں لانے کے لیے ہم نے ایک افسانوی سازش تیار کی ہے ۔ سو جتنی کہانیاں ہیں اور جتنے کہانیاں لکھنے والے ہیں اتنی ہی کہانی کی صورتیں ہیں ۔
لبابہ عباس نے اوپر تلے چھپنے والے اپنے دو مجموعوں” سمجھوتے کی چادر“ اور ” دھند میں راستہ“ میں جس افسانوی سازش کا حیلہ کیا ہے اس میں کہانی کا بہاﺅ تند اور معنیاتی ترسیل دھار بہت تیز ہے ۔ بظاہر جنسی حِسّیت اس کے افسانوں کا نمایاں پہلو لگتا ہے تاہم میں نے محسوس کیاہے کہ اس کی کہانیوں کا بنیادی سروکار خالص جنس نہیں بلکہ خاندان کے انسٹی ٹیوشن کا استحکام ‘اس کی بقاءاور اس حوالے سے سر اٹھانے والے اندیشے ہیں ۔
جس آئیڈیل خاندان کا تصور لبابہ کے افسانوں سے متشکل ہوتا ہے اس میں ماں کا کردار مرکزی ہے ایسی ماں کا کردار جو اپنی نسل کو اپنے پرکھوں کا تہذیبی سرمایہ منتقل کر نا چاہتی ہے ۔ خاندانی انسٹیٹیوشن کی بقا پر زور دیتی کہانیوں کے ضمن میں آپ ”لالٹین روتی ہے‘ ‘”وہ چار برس“ ” دولے شاہ کا چو ہا“ ’ مخملیں کانٹے “ ” اثاثہ کچے خوابوں کا“ جیسی کئی اور کہانیوں کو بھی دیکھ سکتے ہیں جن میں کہیں تو خاندان کو تحلیل ہوتے ہوئے دکھ کی وہ کیفیت ابھاری گئی ہے جس میں سینے پھٹ جاتے ہیں اور کہیں ان وجوہ کو اجاگر کیا گیا ہے جو مشترکہ خاندانی نظام میں دراڑیں ڈال رہے ہیں ۔ لبابہ کو وہ ماں بہت محبوب ہو گئی ہے جو بیٹوں کی اپنی خوشبو کو سنبھال سنبھال کر رکھنا چاہتی ہے ۔ کہانی ”خوشبو کا سفر“کا گھرانہ بھی اس تہذیبی خوشبو کو بچا لینے کے جتن کر رہا ہے ۔ ”رانی سیدانی“ صرف اس عورت کی کہانی نہیں ہے جو شوہر کے انتقال کے بعد امام بارگاہ کا نتظام سنبھال لیتی ہے بلکہ یہ اس عورت کی کہانی ہے جو رشتوں کو بچا سکتی تھی اور نہیں بچا پائی تھی۔ اسی طرح افسانہ” منے میاں “میں مرد کے اس رویے کو موضوع بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے عورت باغی ہو کر گھر توڑ سکتی ہے۔
جدید زندگی کا آشوب لبابہ کی کہانیوں کا باقاعدہ موضوع بن گیا ہے ۔ افسانہ ”وہ چار برس“ کا شاہجہان مرزا اسی آشوب کو بھوگتے بھوگتے سو گیا ہے۔ افسانہ ”دل مجروح“ کا علی جاوید بچوں کو آسائشیں فراہم کرتے کرتے موت کے دروازے پر دستک دینے لگتا ہے ۔ اس کی اولاد جو نئی زندگی کے آشوب کا لقمہ ہو چکی ہے وہ اس کی زندگی کی دعائیں مانگنے کی بجائے‘ باپ کی موت کو اپنے اپنے ٹائم ٹیبل میں درست درست بٹھانے میں جتی ہوئی ہے ۔ وہ مرنے والے کے لیے موت کا وہ وقت مقرر کر نا چاہتی ہے جس سے ان کی زندگیوں کے اپنے معمولات متاثر نہ ہوں۔ ’ افسانہ ’ ’اثاثہ کچے خوابوں کا“ میں گھر کی عورت مر گئی ہے اور شوہر سوچ رہا ہے کہ اس مہینے کیوں مرگئی اس مہنے تو بچوں کی پچاس ہزار فیس دی گئی ہے ۔ لبابہ نے اپنے افسانوں میں سجھایا ہے کہ زندگی کی روز بروز بڑھتی ضرورتیں کیسے پاکیزہ محبت اور سچے رشتوں کو نگل رہی ہیں ۔
یہ جو میں نے آغاز میںلبابہ کے ہاں جنسی حسیت کا ذکر کیا تھا تو اس کا سبب اس کی ایک دو نہیں کئی کہانیاں ہیں ۔ ”ایک اور راستہ “ ”اطمینان“ ”دو آنسو “” بازار کی بیٹی“ ” زخمی کو کھ“ ” گھر کے بھیڑیئے “ ” بزدل“ ” آدھی چارپائی“ ”مساج“ ” ریت کی دیوار“اور ”بے آئینہ چہرے “ جیسی اوپر تلے کئی کہانیاں۔ جنس کو یوں باقاعدہ مسئلہ بنا کر اورسنجیدگی سے پلٹ پلٹ کر” مردانہ وار“ لکھتے چلے جانا واقعی ہمت اور حوصلے کی بات ہے۔
یہیں ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ” بے آئینہ چہرے ‘ جیسی خالص جنسی مسئلہ بیان کرتی کہانی کو چھوڑ باقی کہانیوں کو بغور دیکھا جائے تو ان میں جنس بنیادی مسئلہ بنتی ہی نہیں ہے ۔ اس حوالے سے یہاں میں منٹو کی ایک کہانی ”کالی شلوار“ کے ساتھ جوڑکر لبابہ کی کہانی”دوآنسو“ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ کہ یہ اس ضمن کی عمدہ مثال ہے ۔ پوری کہانی نہیں بس دونوں کی آخری کی سطریں ۔ منٹو نے سلطانہ کو بندوں کے بدلے کالی شلوار دلانے والے شنکر کی پتلون پر شکنیں تک دکھائیں تھیں جب کہ کچھ ایسی ہی شکنیں لبابہ نے نازیہ کی ساڑھی پر بھی دکھا دی ہیں ۔اس ساڑھی پر جس کا بلاﺅز کاٹ کر نازیہ نے بالشت بھر کرلیا تھا ۔ منٹو کی کہانی کا شنکر بڑا شاطر تھا مگر لبابہ نے نازیہ کو مجبور لکھا ہے۔ تاہم وہ اتنی مجبور نہیں ہے کہ باپ کے مرنے کے بعد باقی رہ جانے والے گھر کو نہ بچا سکے۔ نازیہ کے لیے ایف اے کی سند کام نہ آسکی تو اُس نے جسم کو جارجٹ کی ساڑھی میں سے اچھال کر بکنے والی جنس بنا لیا اور قیمت وصول کر لی۔ یوں یہ کہانی مارکیٹ کی ان قوتوں کے منہ پر طمانچہ بھی ہو جاتی ہے جو جسم کو جنس بنا دیتے ہیں۔
”بازار کی بیٹی“ ”دل کا باغ“ ” ہزار کا نوٹ“ شناس کلینک “ اور ”دل مجروح“ جیسے افسانوں میں بھی اسی منڈی والے معاشرے کی نوٹوں میں تلتی ہوئی اخلاقیات کے چوغے کو تار تار کیا گیا ہے ۔ افسانہ ”بازار کی بیٹی مےں منڈی والے معاشرے میں انسانی وجود کی بے توقیری اورمقدس رشتوں کی پامالی کو انتہائی سفاکی سے دکھایا گیا ہے۔ اس کہانی کو لکھتے ہوئے لبابہ منٹو کے محبوب کرداروں کے مقابل ہو گئی ہے۔ اور اس نے کوٹھے کا لذیذ منظریوں سہولت اور سادگی سے لکھ دیا ہے کہ سب کچھ جیسے قاری اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوتاہے۔ کہانی بتاتی ہے کہ نتھ اتروائی کا ضیاءالدین سے بیس لاکھ کا معاوضہ وصول کرکے اپنی کوکھ میں تخم رکھوانے والی نگار پرجب اس کی بیٹی زیب النساءکی نتھ اتروائی کا مرحلہ آتا ہے توتقدیر ضیاالدین کے بیٹے شکیل کو سامنے لے آتی ہے۔ ضیاالدین کی نسبت سے شکیل زیب النساءکا بھائی ہے ۔ یہ وہ تقدیر ہے جو اس کہانی میں لبابہ نے لکھی ہے اور ایسا لکھ کر بتا دیا ہے کہ منڈی کی عورت کا کوئی بھائی اور کوئی بیٹا نہیں ہوتا ۔ افسانہ ”ہزار کا نوٹ“ میںہزار کا نوٹ مادے سے مات کھاتی نسل کے لیے تو بہت اہم سہی مگر انسانی رشتوں کے خوشبو اور خالص پن کو اپنی روح میں اتار لینے والے باپ کے لیے وہ فقط کا غذ کا ایک پرزہ ہوتا ہے ۔”دل کا باغ“ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو ماہ رخ کی ماں مرنے کے بعد اس کے باپ اور بھائی کو اپنا بزنس پارٹنر بنالیتا ہے کہ پیسے کی تہذیب نے محبت کا رشتہ قائم کرنے کا یہی قرینہ بتایا ہے۔ تاہم یہ الگ بات کہ وہ جیت کر بھی ماہ رخ کوہار جاتا ہے۔ اسی ہار سے لبابہ نے اس تہذیبی ورثے کی بقا کا احساس اجاگر کیا ہے جس میں مادہ اور مارکیٹ کو محبت مات دے دیتی ہے۔
میں نے بڑے بڑوں کو ڈینگیں تو بہت مارتے دیکھا ہے مگر جب انہیں راست کہانی کی تلوار جیسی تیز دھار حقیقت کے مقابل ہونا پڑا تو ساری ہَیکڑی بھول گئے ‘ ہاتھ پاﺅں پھول گئے کہ جس معاشرے میں رہتے تھے اس کی چولی کیسے اتاریں۔ آڑ لینے کو ادھر ادھر کی کئی باتیں لکھ ڈالیں‘کہیں منظر نامہ‘ کہیں کرداروں کا حلیہ یا قامت اور کچھ نہ ہوا تو علامت یا تجریدکی ڈھال بنائی کہانی اور قاری کا دھیان بہکایا اور چپکے سے لپٹ لپٹا کر وہ سفاک بات کہہ دی جس کے لیے انہوں نے کہانی لکھی ہوتی ہے ۔ قاری کو کہانی کے ایسے بھید بھنور‘ ایسی گولائیاں گہرائیاں اورقوسیں تلاش کرنے کو متن کی دبازت میں اترنا پڑتا ہے یا پھر اس کی کھال چھیل چھیل کر اتارنی پڑتی ہے ۔ خیر ‘ یہ کوئی اتنی معیوب بات بھی نہیں کہ اس سارے عمل کا اپنا ایک لطف ہوتا ہے اور وہی لوگ اس سے آگاہ ہیں جو سہج سہج آگے بڑھنے ‘ قریب ہونے اور قربت پالینے کا قرینہ اور حوصلہ رکھتے ہیں ۔ لیکن میں توسفاک سماجی حقیقتوں کے مقابل حوصلے سے ہونے کی بات کررہا تھا وہی حوصلہ جو منٹو کے پاس تھا اور جس کے بارے میں منٹو کا دعوی تھا کہ یہ حوصلہ کسی عورت کے پاس نہیں ہو سکتا۔ تو صاحبو خبر ہو کہ یہ حوصلہ لبابہ عباس کے پاس ہے۔ اور وہ بھی اتنی حیرت انگیز حد تک کہ اس نے منٹو کے دعوے کوجھٹلا کر رکھ دیا ہے ۔ اب رہی بات منٹو والے سلیقے کی ‘ تو یوں ہے کہ جو کمر کس لینے کا حوصلہ رکھتی ہو اور کسی بھی بات کو راست بیانیے میں کہہ ڈالنا اس کے لیے مسئلہ نہ بن رہا ہو تو بات کہنے کا سلیقہ کتنے کوس پرے رہ جاتا ہے‘ سو اِدھر سے امید بندھتی ہے اور بجا طور پر بندھتی ہے ۔
٭٭٭٭

Saturday, March 7, 2009

ایک کتاب جو قاری کو تحلیل کر دیتی ہے

ایک کتاب جو قاری کو تحلیل کر دیتی ہے
محمد حمید شاہد
آصف فرخی نے خود کشی کا جنگل کے عنوان سے لکھا ہے کہ ”کتابیں بہت زیادہ مانوس ہو جائیں تو یکسانیت کی بو آنے لگتی ہے ہم انہیں ایک ہی طرح سے پڑھنے کے خوگر ہو جاتے ہیں اور پھر جب ان کا سامنا ہو تو کنی کاٹنے لگتے ہیں ۔ اکتاہٹ یا بےزاری کا پیش خیمہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔
بہت ساری کتابیں جب میرے اندر اکتاہٹ اتار چکیں اور میں واقعی کتابوں سے (مجھے کہہ لینے دیجئے کہ ایک جیسی کتابوں )سے کنی کاٹ کر آگے بڑھنے لگا تو ایکاایکی ایک ایسی کتاب نے مجھے تھام لیا جو قاری پر فنا کی اصل آشکار کرتی ہے۔
شاعری کی ایک کتاب‘ جو فقط شاعری نہیں ہے۔
اکتائے ہوئے دلوں کو اپنے اندر جذب کر لینے والی کتاب اور پھر تحلیل کر ڈالنے والی کتاب۔
اس کتاب کا چرچا میں نے تب بھی سنا تھا جب یہ پہلی بار ۶۹ءمیں طبع ہوئی تھی مگر میں اسے حاصل نہ کر پایا تھا اب یہ ایک مرتبہ پھر چھپی ہے اور میرے سامنے یوں آئی ہے کہ میں اسے کئی مرتبہ پڑھ چکا ہوں۔
”انخلاع“ اور ”انقطاع“ والے مظفر اقبال نے اردو کے پیرھن میں اسے ڈھال کر اپنے لئے ہمارے دل میں اور اردو ادب میں ایک خاص گوشہ محفوظ کرا لیا ہے۔ لیجئے کتاب کی طرف پلٹتے ہیں۔ ایک ایسی کتاب جسے آپ کہیں سے کھول کر پڑھ سکتے ہیں اور اپنی روح میں طلاطم برپا کر سکتے ہیں کہ یہ جس کا کلام ہے اس نے اپنے بارے میں بجا طور پر کہا ہے کہ۔
”حق نے میرے دل سے میرے ساتھ کلام کیا
میرا علم میری زبان پر تھا
بعد کے بعد وہ قریب آیا
اللہ نے مجھے چنا اور ممتاز کیا“
کتاب کے متن میں اترنے سے پہلے مجھے مصنف کی شخصیت کے سحر نے آلیا۔ ابتدائیہ جو سید نعمان الحق نے لکھا اور مقدمہ جو کتاب کے مترجم مظفراقبال کے قلم کا اعجاز ہے‘ میں صاحب دیوان کا بھر پور سراپا بیان کیا گیا ہے میں آگے بڑھنے سے پہلے اس البم سے چند تصویریں آپ کی نذر کرتا ہوں۔
پہلی تصویر....
ایک بیس سالہ نوجوان جس کا باپ دریائے فرات کے ساحلی علاقوں میں اون کی بنائی کا کام کرتا تھا‘ بصرہ سے ہوتا ہوا بغداد پہنچا حافظ قرآن سہیل القستری کی کارگہ تصوف کا یہ مزدور جنید بغدادی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وجود عدم ‘ فنا‘ بقا تو حید‘ عشق رسالت وحی حضور و نور سیر شاری و دیوانگی وارفتگی و مستی حجاب و انکشاف فصل وصل تشبہیہ اور تنزیبہ جیسے سارے معاملات سارے سربستہ راز اس نوجوان کو دل گیرکئے ہوئے تھے اور امید تھی کہ جنید بغدادی کچھ گرہ کشائی کریں گے لہذا چند سوال ان کے آگے رکھے اور بہت ادب سے جواب طلب ہوئے۔ بغداد کے صوفی نے کوئی جواب نہ دیا صرف ایک مختصر سی بات کہی‘ مگر ایسی کہ حلقے میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کے چہروں سے رنگ اڑ گیا۔ فرمایا۔
”وہ دن جلد آنے والا ہے‘ جب تم لکڑی کے ایک ٹکڑے کو لہو کے سرخ رنگ سے بھر دوگے“
دوسری تصویر....
ستاون سالہ سفید ریش شخص کو ،کہ جسے ایک عورت کی مخبری پر گرفتار کیا گیا تھا‘ بغداد کے سارے شہر سے پولیس کی نگرانی میں یوں گزارا گیا کہ پکارنے والا پکار پکار کر لوگوں کو اس کے خلاف بھڑکائے جاتا تھا ابن عیسی کے پاس وزارت کا منصب تھا وہ جانتا تھا کہ سب الزامات باطل ہیں لیکن اس کے سامنے ایک ایسا قیدی تھا جس کے خلاف حکومت کی مشینری حرکت میں آچکی تھی اور اب قانون کے تقاضوں کو پورا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
تیسری تصویر
مقدمے کی کارروائی چالیس روز تک جاری رہی جوں جوں کارروائی طویل ہو رہی تھی شہر میں فساد کا خطرہ بڑھ رہا تھا لہذا اس کے آخری اجلاس کی صدارت ابن عیسی نے خود کی سماعت کے دوران ملزم پر خوب طنز کئے اس کے چہرے پر چانٹے مارے داڑھی کٹوادی اور اپنی تلوار کے دستے کی ضبریں لگائیں۔
چوتھی تصویر
دو دن بعد شہر کے مشرقی حصے میں پولیس چوکی کے سامنے اسے شکنجے میں کس کر لٹکایا گیا اگلے روز یہی عمل مغربی کنارے پر دہرایا گیا خلقت نے دیکھا کہ جس بزرگ کو شکنجے میں جکڑا گیا تھا وہ کمال اطمینان سے کشف اور یقین کی نعمتوں کی فرحت میں غرق خدائے واحدلاشریک کی توحید میں گم تھا۔ اس نے اس عالم میں بھی نہ تو نمازوں سے غفلت برتی اور نہ ہی اس نے کسی پریشانی کا اظہار کیا کہ یہ وہ شخص تھا جو اپنے قاتلوں کو پہلے ہی اپنا خون معاف کر چکا تھا۔
مجھے ہلاک کر دو‘ میرے باعتبار ساتھیو
کہ میرا قتل ہی میری زندگی ہے
میری موت میری حیات میں ہے
اور میری حیات میری موت میں ہے
میرے نزدیک اپنے وجود کا مٹا دینا
گراں قدر کاموں میں اونچا ہے
اور اپنی صفت کے ساتھ بقا
قبیح ترین گناہ....“
چار دن کے بعد اسے سولی سے اتارا گیا ابھی وصال حقیقی کا وقت نہیں آیا تھا دریا کے مشرقی حصے میں واقع وزیر کے محل کی جیل میں پہنچا دیا گیا یہاں اس نے آٹھ سال سات ماہ اور آٹھ دن حراست میں گزارے.... اور نویں دن اسے اس جہان فانی سے کوچ کر جانا تھا۔
پانچویں تصویر....
وہ تیزی سے اپنی زندگی کے اس عظیم لمحے کی طرف جا رہا تھا جو اسے خالق حقیقی کے قرب سے ہمکنار کرنے والا تھا اس سے ملا قاتیوں کی سہولت چھین لی گئی واجب القتل قرار دیئے جانے کا فتوی لفافے میں بند ہو کر حاجب نصر کے ذریعے خلیفہ کو توثیق کے لئے ارسال ہو چکا تھا اور پھر جب المقتدر نے سزائے موت کی توثیق کر دی تو وہ لمحہ قریب تر آ گیا جس امر ہو جاناتھا۔
چھٹی تصویر
جب وہ اسے مصلوب کرنے کے لئے لے کر آئے تو اس شخص نے سولی اور کھیل(مسلم) دیکھے تو اتنا ہنسا کر اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا پھر جائے نماز طلب کی دو رکعت نماز ادا کی اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لیے۔
”میں ملتجی ہوں کے تو مجھے توفیق دے کہ میں تیرا شکر ادا کر سکوں اس نعمت پر جو تونے مجھے دی ہر غیر کی نظر سے چھپا کر تونے اپنے چہرے کے جو لشکارے مجھ پر ظاہرکئے اور دوسروں پر حرام اور اس نظر کے لئے جو تونے مجھے اپنے بھیدوں پر ڈالنے دی۔ دیکھ یہ لوگ تیسرے عبادت گزار لوگ مجھے قتل کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ تیرے تعصب میں اور تیرے قرب کے لئے۔ انہیں معاف کر دے کہ تونے اگر ان پر وہ کشف کیا ہوتا جو مجھ پر کیا ہے تو ہ یہ نہ کرتے جو کر رہے ہیں اور اگر تونے مجھ سے مخفی رکھا ہوتا جو تونے ان سے مخفی رکھا ہے تو میں جس ابتلا سے گزر رہا ہوں اسے برداشت نہ کر پاتا۔ ساری تعریف تیرے ہی لئے ہے جو کچھ بھی تو کرے۔ تعریف تیرے ہی لئے ہے جو کچھ بھی تیرا حکم ہو“۔
اب مجھے بتا ہی دینا چاہئے کہ یہ منصور حلاج کی زندگی کی تصویریں ہیں۔ ابوالمغیث الحسین بن منصور الحلاج کی زندگی کی تصویریں‘ جو میں نے اس دیوان سے آپ کے لئے منتخب کی ہیں جسے مظفر اقبال نے اردو میں ڈھالا ہے۔ منصور حلاج شہر بیضا (فارس) میں ۸۵۸ میں پیدا ہوئے عمر کا ابتدائی حصہ عراق کے شہر واسط میں گزارا سولہ برس کی تھے کہ بصرہ میں عمرومکی کی صحبت نصیب ہوئی بعد ازاں بغداد گئے اور جنید بغدادی کے حلقہ تلمذ میں شریک ہو گئے۔ رواداری اور مصلحت کے بالکل قائل نہ تھے جو درست سمجھتے کہہ گزرتے آپ کے نظریہ حصول پر شدید اعتراضات ہوئے تاہم اس کی قابل قبول تعریف کرنے والے بھی بہ کثرت موجود تھے۔ انالحق کہنے کے جرم میں کفر کا فتوی لگا سزائے موت پائی فیصلے میںلکھا گیا تھا کہ اسے کوڑے مارے جائیں‘ پھر ہاتھ پاﺅں کاٹ دیئے جائیں اور بعد میں سرتن سے جدا کر کے اعضا کو آگ میں جھلسا کر دجلہ کے پانیوں میں بہا دیا جائے۔
حسین بن منصور حلاج کو کافر کہنے والے بھی بہت ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انہیں سزا قرآن و سنت کی روشنی میں درست دی گئی جبکہ دوسرا گرہ انہیں ولی اور برگزیدہ شخصیت قرار دیتا ہے اور اصرار کرتا ہے کہ لوگ ان کے اقوال کے ظاہری معانی سے مغالطہ میں پڑ گئے ہیں اگر وہ اصل معانی پر غور کرتے تو کبھی کافر نہ کہتے۔جلال الدین رومی نے علانیہ ان کی تحسین کی تھی۔ فریدالدین عطار نے شہید حق کا خطاب دیا۔ کتاب کے دیباچہ نگار نے منصور حلاج کے اثر سے بغداد میں سر اٹھانے والی اخلاقی اور سیاسی اصلاح کی تحریکوں کا تذکرہ کر کے ان سازشوں سے بھی نقاب اٹھایا ہے جس کی بھینٹ وہ چڑھ گئے تھے مگر جس کتاب سے میں آپ کو متعارف کرا رہا ہوں اس کااصل متن تو وہ قصائد،قطعات اور نظمیں ہیں جن میں ایک ایسا صوفی کلام کرتا ہے جسے فنا کے مقام بقا پر مقیم ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔بجا طور پر کہا گیا ہے کہ اس کلام میں جہاں ایک انسان کے عزم ہمت اور عشق صادق کا نور موجود ہے وہیں اس پکار کی عمیق گہرائیوں میں ایک ایسا سناٹا بھی ہے جو روح کو تھرتھرا دیتا ہے۔
”سکوت‘ پھر خاموشی‘ پھر فتور کلام
اور علم‘ پھر وجد‘ پھر فنا مٹی‘ پھر نار‘ پھر نور ٹھنڈک‘ پھر سایہ‘ پھر دھوپ‘ دشوار راستہ‘ پھر آسان‘ پھر بیاباں دریا‘ پھر سمندر‘ پھر خشکی سکر‘ پھر صحو‘ پھر شق‘ قرب‘ پھر وصل‘ پھر انس قبض‘ پھر بسط‘ پھرمحویت فراق‘ پھر جمع‘ پھر طمس (تصعید) ربودگی‘ پھر واپسی‘ پھر جذب اور وصف‘ پھر کشف‘ پھر خفاعمارات.... جو صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جن کے لئے دنیا ایک فلس سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی۔
(روز نامہ پاکستان اسلام آباد پیر 26فروری 2001)

Friday, March 6, 2009

پروین طاہرکی نظمیں

محمد حمید شاہد
پروین طاہرکی نظمیں

یہ کل ہی کا واقعہ لگتا ہے کہ پروین طاہر نے کسی اِجلاس میں اَپنی نظم پہلی بار تنقید کے لیے پیش کی تھی اور میرے ہاں ”ایک نئی آرورہ“ کے عنوان سے مضمون ڈَھل گیا تھا۔ مجھے اَطالوی اَساطیری رَوایت کی آرورہ یوں سوجھی تھی کہ میں نے پروین طاہر کی نظم ”Aurora“ کو پڑھا تو وسطی اور بالائی بلدوں کے اُدھر نوراَفشانی ہونے لگی تھی ‘وہیں سے جہاں اُفق کی لالی پھوٹتی ہے ‘کبھی اَبلق ‘کبھی گلابی اور کبھی جامنی کہ میرے گمان میں وہی توAurora تھی‘ طلوع کی دِیوی جو پورے منظر کو مادر ِمشفق کی طرح نور کے ہالے میں لے لیتی تھی.... اور آج جب کہ اُس کی نظموں کا مجموعہ ”تنکے کا باطِن “ میرے سامنے ہے تو مجھے اِس پر طمانیت کا اِحساس ہوتا ہے کہ سب سے پہلے پروین کی نظم کو لکھ کر تسلیم کرکے میں نے کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ میں نے اُس کی ساری نظموں کو بار بار پڑھا ہے اور ہر بار یوں ہوا ہے جیسے پوری کائنات نے گھومتے گھومتے اَپنا رُخ اَپنے اس آغاز کی سمت کرلیاہے ‘ اُس جانب جہاں سے وہ طلوع ہوئی تھی۔ وہیں‘ جہاں سے اَبلق روشنی پھوٹتی ہے ‘ ایسی روشنی جو محض ابلق نہیں رہتی کبھی گلابی ہوتی ہے اور کبھی جامنی حتّٰی کہ یہ ِاحساس دل میں جاگزیں ہو جاتا ہے کہ اپنے تخلیقی سفر کے اس دورانی¿ے میں پروین نے اُس نور پچکاری چھوڑتے آغاز سے بھی اُدھر جست لگادی ہے۔ وہاں‘ جہاں خلا ہے اور اُسے اِس خلا میں خود راستہ بنانا ہے:
مِرے اَگلوں کو‘ مجھ کو
گم شُدہ خوابوں کی منزل پر
بِنا آواز جانا ہے
صَدا کے معبدوں کی
تیرگی کو چھوڑ کر پیچھے
خلاﺅں میں نیا رَستہ بنانا ہے۔
(آواز سے باہر)
صداﺅں سے آباد معبد پروین کے ہاں تیرگی کی صورت ظاہر ہوئے ہیں ۔ اُسے آوازوں سے پرے کا من بھاو¿نا منظر لبھاتا ہے ۔ وہی جس کے اندراُلوہی خامشی میں بے انت ‘ ناپیدا کنار جمالِ یارکی وحی اُترتی کِن مِن بارشیں ہوتی ہیں۔ جہاں پوری لگن اور پورے آہنگ کے ساتھ دِھیان باندھنا اور دِھیان کے قیام کو کھینچے چلا جاناممکن ہو جاتاہے ۔ مگر یہ علاقہ تو صداﺅں کے معبد وں کی دِیوار کے عقب میں پڑتا ہے:
پسِ دیوار معبد کی
سُریلی گھنٹیاں بجتی رہیں
الوہی بندھنوں میں
باندھ کر رکھنے کے سندیسے
ملائم آنکھ کے نم میں
امر ہونے کی تاباں خواہشیں
سجتی رہیں
سُریلی گھنٹیاں بجتی رہیں۔
(ذرا پہلے)
ان نظموں میں پروین کا غالب رجحان پیش رَفت کا نہیں بلکہ بھید بھرے اورپُرسکون اَبدی حیات بخشنے والے آغاز سے پہلے والا علاقے کی ناغول میں معتکف ہونے کا ہے یوں جیسے بیج کے اندر کہیں راس جنین اور بیخچہ معتکف ہوتے ہیں۔ اُس کی نظم ”منتظر“ کی ”ساکت خدائی“ سے جس متحرک خدائی کو وزیر آغا نے نکال لیا ہے ‘ واقعہ یہ ہے کہ وہ تو پروین کے ہاں کہیں بھی اُس کا بنیادی سروکار نہیں بنتی۔ اسی نظم کو لیجئے ۔ اِس میں تو آغاز سے پہلے کے منظر اور پگھلاﺅ سے پہلے کے اِنجماد کی تجسیم کے باوصف اِنتظار کے تَحجرُّ کو دکھایا گیا ہے ۔ اِس نظم کا عنوان سجھاتا ہے کہ شاعرہ کو خاموش مناظر کے بکھرنے اور منجمد مناظر کی برفیںپگھلنے تک نیچے ترائی میں ساکت خدائی کا حصہ بن کر رہنا ہی مرغوب ہے ۔
یہ جو آدمی کو اس کے مقدر نے ساکت خُدائی سے باہر دھکیل کر آوازوں کے شور میں پھینک دیا ہے تو یوں ہے کہ یہ شاعرہ کے ہاں متشکل ہونے والے تصوراتی اِنسان کا مرغوب علاقہ نہیں ہے ۔ بے شک اس آدمی کی نسوں میں پیش رَفت کی عادت دوڑ رہی ہے مگر شاعرہ نے اپنی نظم ”آواز سے باہر“ میں خیال ظاہر کیا ہے کہ کئی صدیوں سے آوازوں کے باو¿لے کتوں نے اِنسانی روحوں کو بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر اور بھونک بھونک کر جو آگے لگا رکھا ہے تو پیش رفت کا وتیرہ اِسی جبر نے اُس کے خون کا جزو بنایا ہے۔ اُس کی نظم Auroraمیں دیکھیے یہی پیش رفت گزیدہ آدمی کتنا ہلکان ہوتے دکھایا گیا ہے۔
یہ صدیاں اُگلتی تھکاوٹ کے مسکن
جہاں وسوسے چار سو بس گئے ہیں
ڈری سہمی سہمی سی چلتی ہے دھڑکن
( Aurora)
اِس نظم میں آگے چل کر شاعرہ نے اُسی آغاز سے پہلے کے منظر نامے کو خاموشی اور سکوت کی بجائے چہکار سے بدل کر اپنی اس خوب صورت نظم کادلکش حصہ بنادیا ہے ۔ اب یہاںالوہی چُپ کی تانت نہیں بلکہ بیتے یُگوں کی رو پہلی رُتیںہیں جن میںگُلابوں کے تختے مہک رہے ہیں اور ہری خواب راتوں کی نارنجی صبحوںمیں نیلے نیلے پرندے چہک رہے ہیں ۔ یہ نظم آخر میں یوں مکمل ہوتی ہے:
گماں ہے کہ شاید وہ دِن پھر سے آئیں
ترے جنگلوں کے دَرختوں پہ گاتی
پھریں فاختائیں
اُلوہی سُروں میں مقدس سی تانیں
لگائیں ہوائیں
مناظر سبھی نور میں ڈوب جائیں۔
(Aurora)
یوں دیکھیں تو نور میں ڈوبنے کا یہ منظر بھی نور کے پھوٹنے سے پہلے کا بنتا ہے ۔ نظم Reversion میں یہی نور پھوٹنے سے پہلے کی کائنات شاعرہ کا دِل اور اُس کی اپنی آنکھ ہو جاتی ہے ۔ شاعرہ کا کہنا ہے کہ روپ سنگھاسن کا عجب منظر اُس کی آگہی پر کُھل گیا ہے:
اوج نہیں ‘ اِک دلدل تھی
سطح پہ کیسا دھوکا تھا
نیل کمل کے پھولوں کا
خواب سنہرا گم تھا

اپنے من کو جانے والا
رستہ سب سے اچھا ہے
اپنی آنکھ ہی اپنے آپ کا
سب سے بہتر مسکن ہے۔
(Reversion )
صاحب ‘اگرچہ یہ بہ سہولت شناخت کیا جاسکتا ہے شاعرہ کے ہاں الوہی سکوت کے کیا معنی ہیں مگر اس کے ثانویں تخلیقی سروکاروں سے اس کے معنیاتی انسلاک کی صورتیں تلاش کرنے والوں کو عین اُس وقت دھوکا ہو سکتا ہے جب وہ ان نظموں کا سطحی مطالعہ کریں گے ۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو یقین جانیے پروین نے اپنی نظموں میں معنی کے جس اوج کو برتنے کے جتن کیے ہیں وہ اس کی تلچھٹ کو بھی نہ پا سکیں گے۔ بجا کہ یہ ایک خاتون کی نظمیں ہیں ۔ اور یہ بھی درست کہ ان نظموں میں کہیں پرانی حاملہ کا ذِکر ہوا ہے کہیں آنول نال کا ۔ ناری جیسا لفظ بھی دھوکا دینے کو موجود ہے ۔ کہیں کہیں مردوں کے معاشرے میں عورت ذات کے عدم تحفظ تلاش کا التباس بھی ہوتا ہے ۔ ان نظموں میں پاگل پُروا قریہ قریہ گھوم کرسنگی ڈھونڈنے کی خبر بھی دیتی ملتی ہے۔ اپنے آپ کو سمیٹ لینے والے مرد کا حوالہ بھی اسی کتاب کی ایک نظم میں آیا ہے جس کی خوشبو ‘ آنکھوں ‘دل اور اس مرد کی باتوں کے سراب سے جینڈر کی تفریق کااشتباہ پیدا کرتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پروین نے اِن سارے وسیلوں کو ایک بر تر سطح وجود کی تلاش میں اِیک ٹول کے طور پر اِستعمال کیا ہے ۔ مثلاً دیکھئے ایک ہی نظم میں اس کے ہاں زماںاور مکاں کی کیسے صورتیں بدلتی ہیں ۔
کہاں جا رہے ہو
سیہ روشنی کی چکا چوند دھارا کے دوجے کنارے پہ
اندھا کنواں ۔۔۔۔اک قدم فاصلہ

کہاں جی رہی ہو
کھلی آنکھ کے دل نشیں خواب کی
ایک تصویر میں
جس کی تعبیر ازلوں سے معدوم ہے

کہاں ہنس رہے ہو
پس ِ قہقہہ
آڈیبل رینج سے بھی بہت دور نیچے
کراہوں کی لہریں فنا ہو رہی ہیں

کدھر دیکھتے ہو
ستاروں کے پیچھے نئی کہکشائیں
جہاں پر تجازب بھی اِس پار جیسا
ری پلشن بھی جو تم جہاں بھوگتے ہو
کہاں جا رہے
(کہاں)
صاحب‘ اس نظم میں نئی سائنسی حسیت بہت خوبی سے تخلیقی اظہار کا قرینہ بنی ہے۔ اِس قرینے کا لطف اپنی جگہ مگر اس لطف کے باوصف یہ بھی تو دیکھئے کہ یہ نئی حسیت آج کے اِنسان کو دھکیل کر جس انجام سے ہمیں دوچار کر رہی ہے اس پر شاعرہ صاد کرنے کو کسی طور تیار نہیں ہے ۔ اِس نظم کو اس کی ایک اور نظم ”لمحہ بے کار چلا جاتا ہے“ سے ملا کر پڑھا جائے تو جس خودآگہی سے شناسائی ہوتی ہے اس میں جدید حسیت کی ساری مہم ایک اُجلے لمحے سے مات کھا جاتی ہے۔ یہ روشن شاعت وہ ہے جو ہم اپنی وقت گزیدگی کی دُھن بھولے ہوئے ہیں۔ یوں دیکھیں تو اگر ایک طرف پروین کی دلچسپی ”ماقبل “سے ہے تو عین اُسی لمحے اُس کی تخلیقی توجہ کا دوسرا علاقہ” مابعد “بنتا ہے۔ یہ”مابعد“کسی اِختتام یا فنا کا حصہ نہیں بلکہ کہیں تولاتعین کا علاقہ ہے کہیں لازمان Iinfinity اورPerpetuity کا۔ وہاں تک وہ اِس آوازوں ‘ رنگوںاور خواہشوں سے آلودہ زمان سے ہو کر نہیں جانا چاہتی بلکہ عین وہاں سے جست لگا کر پہنچنا چاہتی ہے جہاں الوہی خاموشی میں بدنوں پر کشف اُترتا ہے :
شکریہ اے روشنی
اے کائناتی روشنی
تیرا کمالِ کشف ہے
کرنوں کا ہالہ پھینک کر
کھینچا مجھے پاتال سے ۔
(تیرا کمالِ کشف ہے)
اور آخر میں چلتے چلتے آپ کی توجہ پروین کی شاعری میں موجود دو اعداد کی طرف دلانا چاہوں گا ۔ ان میں سے ایک عدد تین کا ہے ۔ کوئی بھی نظم اُٹھا کر دیکھ لیں اس میں تین کیفیتں یا تین جہتیں کسی نہ کسی صورت میں ظاہر ہو جاتی ہیں ۔ یہاںزمان کی تین صورتیں ہیں ۔ ماقبل ‘مابعد اور ان دونوں کناروں کے کنگروں سے بندھا ہوااور رَبر کی طرح تنا ہوا وقت بھی بار بار آپ کے سامنے آتا ہے ۔ آوازوں کی تین صورتیں ہیں ‘وہی الوہی جو شاعرہ کو مسحور کیے ہوئے ہے ۔ شور زدہ آواز جس نے رواں وقت کو آلودہ کر رکھا ہے اور لازمان کو کھوجنے والی آوازیں۔ مَن کی اور دِھیان کی تین کیفیتیں بنتی ہیں تال والی ‘ توازن والی اور رواں دواں۔تیسری بھاوَنا تو پوری نظم کی صورت اس کتاب کا حصہ ہو گئی ہے ۔ میں جانتا ہوں کہ عدد تین کے مثبت معنی بنتے ہیں ۔ تو یوں ہے کہ یہی تین پروین کی نظموں میں آغاز کا الوہی طاق ہندسہ ہو گیا ہے۔ ایک متبائن عدد جسے کوئی دوسرا عدد پوری طرح تقسیم نہیں کرسکتا ۔
دوسراہندسہ ہے آٹھ ‘ پورا پورا تقسیم ہو جانے والا ۔ ایٹم کی طرح ٹکڑے ہو کر تباہی پھیلانے والا ۔ یہ عدد اگر چہ پروین کی نظموں میں کہیں ”اشٹم کے چاند“ کی صورت چمکتا ہوا برآمد ہوا ہے اور کہیں ”اَسون جل “ سے یوں‘ جیسے چوبیس ستاروں سے روشن ستارہ ”اَسونی“ برآمد ہوتا ہے مگر یوں ہے کہ یہ آٹھ کا عدد آدمی کے مقدر احاطے میں نور پھینکنے میں ناکام رہا ہے ۔ روشن تاریکی کا یہ پہلو دیکھ کر یہیں مجھے نہ جانے کیوں رابعہ بصری کی وہ دُعا یاد آرہی ہے جووہ رات اپنے مکان کی چھت پر جاکر عین اس وقت مانگا کرتی تھیں ۔ تب ‘ جب سارا عالم سوجایا کرتا تھا ۔
” اے میرے مالک‘ ستارے چمک رہے ہیں اور آدمیوں کی آنکھیں نیند نے مندمل کر دی ہیں مگر میں ہوں کہ اکیلی تیرے ساتھ ہوں۔ اے مالک ‘اگر میں دوزخ کے خوف سے تجھے طلب کرتی ہوں تو مجھے دوزخ میں جھونک دے اور اگر میرا مقصد جنت کا حصول ہے تو جنت سے محروم رکھ۔ تاہم اگر میں تیرے لیے مخلص ہوں تو مجھ پر اپنے لازوال حسن کو پوشیدہ نہ رکھ“
تو یوں کہ پروین کی نظم میں آغاز سے پہلے والا زمانہ جنت کی صورت آیا ہے اور لمحہ رواں دوزخ کا سا۔ وہ بار بار اپنے خلوص کے ناطے لازماں کے پوشیدہ حسن کے مقابل ہونا چاہتی ہے مگرہر بار بظاہر نکالی گئی جنت کو لپکتی ملتی ہے۔ اُس کی نظموں کا گہرا مطالعہ بتاتا ہے کہ جنت کی طرف اُس کا لپکنا اِس لیے نہیں ہے کہ وہ اس کی لمبی خامشیوں کو عافیت کی صورت تان لینا چاہتی ہے بلکہ اِس لیے ہے کہ وہاں کے الوہی پانیوں سے بدن کی اس آلودگی کو دھو پائے جو زمان سے اس کے وجود کا حصہ ہوئی ہے ۔ یوں سبُک ہو کر وہ لازماں کے لامتناہی حسن کو پانے کے لیے جست لگا نا چاہتی ہے ۔ رابعہ بصری کے سے اِخلاص کو پا نے کے جتن کرنے والی اِس شاعرہ کے ہاں معنی کی اِس جہت نے مجھے بہت نہال کیا ہے لہذا میں نے مستقبل میں بھی اس سے بہت سی اُمیدیں باندھ لی ہیں۔
٭٭٭

نانک جھٹ پٹ سمجھے جا

نانک جھٹ پٹ سمجھے جا

کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ جو چیز آپ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں وہ نظروں سے اوجھل رہتی ہے اور کوئی ایسی انوکھی چیز آپ کے ہاتھ لگ جاتی ہے جو آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔
کل شام میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ کتابوں کے بیچ سے کاغذ کا ایک پرزہ برآمد ہوا‘ ایسا پرزہ جس کی قطعا مجھے تلاش نہ تھی۔ میں نے بغور اسے دیکھا ‘ خاصا بوسیدہ تھا‘ اتنا کہ اس کا رنگ زرد ہونے کے بعد سیاہ پڑنے لگاتھا۔
یہ یہاں کیسے پہنچا....؟
ایک سوال جو مجھے الجھا رہا تھا‘ بہت جلد اپنا جواب بھی سمجھا گیا یہی کہ پرانی کتابوں کی دکان سے خریدی گئی کسی کتاب میں پہلے سے موجود ہوگا۔
جب میں کسی مخمصے میں جاگرتا ہوں توبہ سہولت اس سے نہیں نکل پاتا لیکن اس بوسیدہ پرزے کے حوالے سے ایسا نہیں ہوا۔ جو خیال ذہن نے پہلی بار اچھالا اسے فورا تسلیم کر لیا کہ میرا سارا دھیان اس پر لکھے بابا گرونانک کے اشلوک کی گرفت میں پہنچ چکا تھا۔
نام لیو جس اچھر کا کریو چوگنتا
دو ملایو‘ پنج گن کریو‘ بیس سے دیو اڑا
جو بچے سو چھ گن کریو‘ اس میں چھ دیو ملا
اس سے معنے توحید کے نانک جھٹ پٹ سمجھے جا
مجھے یہ اشلوک اس قدر بھایا کہ فورا ازبر ہو گیا۔ تادیر اسے گنگناتا رہا پھر کاغذ قلم تھام کر اسے آزمانے لگا جو اشلوک میں کہا گیا تھا۔ میرے حساب کتاب کا نتیجہ کیا نکلا۔ یہ بعد میں بتاﺅں گا کہ پہلے دو باتوں کو یادداشت میں تازہ کرنا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ عربی زبان کے حروف تہجی کی تعداد اٹھائیس ہے۔ انہیں باہم ملا کر عموما یوں پڑھا جاتا ہے۔
ابجد‘ ھوز‘ حطی‘ کلمن‘ معنص‘ قرشت‘ شخذ اور ضظغ اس طرح یہ آٹھ کلمے بنتے ہیں۔
پہلے چھ کلموں کے بارے میں روایت ہے کہ یہ مدین کے چھ بادشاہوں کے ناموں سے تربیت پاتے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا رہا کہ یہ ہفتے میں دنوںکی ترتیب تھی‘ کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ دونوں روایات میں کیا کوئی ایک سچی بھی ہے ؟ تاہم زبانوں کے ماہرین کہتے ہیں کہ عربی زبان کے حروف ابجد سامی الاصل اور فنیقیوں کے رسم الخط میں ہیں۔ عربوں نے یوں کیا کہ ہر حرف کی ایک قیمت رکھ دی علم الاعداد فال اور رمل کا انحصار انہی قیمتوں پر ہے۔
اب آپ جاننا چاہیں گے کہ حروف کے اعداد کیا ہیں۔ لگے ہاتھوں وہ بھی لکھے دیتا ہوں۔
ابجد4+3+2+1=
ھوز7+6+5=
حطی10+9+8=
کلمن50+40+30+20=
معنص90+80+70+60=
قرشت400+300+200+100=
شخذ700+600+500=
ضظغ1000+900+800=
اب آئیے اس دوسری بات کی طرف جسے یادداشت میں تازہ کرنا ہے۔ یہ جو میں اوپر علم الاعداد‘ رمل اور فال کا حوالہ دے آیا ہوں تو اس کا قصہ یوں ہے کہ علم الاعداد کی بنیاد یونانیوں نے ڈالی تھی۔ غیب کے احوال کی خبر لینے کے لئے اسی قدیم علم الاعداد کی بنیاد پر علم جفر کی بنیاد پڑی۔ عبرانی میں بائیس حروف تہجی تھے۔ عربوں نے اس میں چھ کا اضافہ کیا یوں یہ اٹھائیس ہو گئے جن کا انطباق چاند کی اٹھائیس منزلوں پر کیا گیا۔ ہر منزل کے لئے الگ الگ حرف مقرر ہوا اور ہر حرف کی الگ الگ تاثیر جسے مدنظر رکھتے ہوئے ”علم الاثار“اور ”علم الاخبار“ کی بنیادپڑی۔ یوں مخصوص تاثیرات کے لئے نقوش لکھنے کا رواج ہوا اور مختلف سوالات سے جوابات کی خبر لائی گئی۔
یہاں وہ دو باتیں مکمل ہو جاتی ہیں جنہیں مجھے دہرانا تھا‘ مگر دو روایات ایسی ہیں جن کے بغیر اس بات کو سمجھنا ممکن نہیں رہے گا جو میں کہنا چاہتا ہوں۔
پہلی روایت حضرت ابوہریرہ سے ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول پاک ﷺ کو فرماتے سنا کہ شگون کوئی چیز نہیں اور اچھا شگون نیک فال ہے۔ لوگوں نے عرض کیا ”فال کیا ہے“ آپﷺ نے فرمایا ” نیک کلمہ جو تم میں سے کوئی سنے“۔
دوسری روایات حضرت انسؓؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ”آنحضورﷺ جب کسی کام کے لئے نکلتے تو آپ ﷺ کو ”یاراشد“ (سیدھی راہ پر چلنے والے) اور ”یابحیح“ (کامیاب) جیسے کلمے سننا بہت پسند تھا“
اب بابا گرونانک کے اشلوک ایک مرتبہ پھر پڑھئے۔ آپ کو بھی یہ میری طرح اچھے شگون کی طرح لگیں گے۔جب میں کاغذ قلم تھام کر اس نتیجے پر پہنچا تھا جس کی سمت آپ کو لے جانا چاہتا ہوں تو یقین جانیے دل سرشاری کی لہروں سے چھلکنے لگا تھا۔ اگر آپ کو اس موضوع سے کچھ دلچسپی ہونے لگی ہے تو آپ یوں کریں کہ کاغذ قلم تھام لیں اور وہاں جا بیٹھیں جہاں کوئی اور نہ ہو‘ اب آپ کاغذ پر اس کا نام لکھیں جو وہاں بھی ہوتا ہے جہاں کوئی بھی نہیں ہوتا۔
مجھے یقین ہے آپ نے کاغذ پر ایک لفظ لکھا ہے ”اللہ“
اب اس لفظ کے اعداد جمع کر لیں
(ا+ ل+ ل +ہ(66=5+30+30+1
یوں آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ کا عدد ”66“ بنتا ہے۔
اب کوئی اور نام سوچیں.... کوئی سا.... جو آپ چاہیں
میں نے تو ” پاکستان“ سوچا تھا۔
اس لفظ کے اعداد بھی جمع کر کے ایک عدد بنا لیں
(پ+ا +ک+ س+ ت+ ا+ ن)
534=50+1+40+60+20=
بابا گرونانک کا اشلوک ہم بھولتے جا رہے ہیں
نام لیو جس اچھر کا کریو چوگنا
گویا ہم نے 534 کو چار گنا کرنا ہے یہ ہوا
2136=4x534
آگے گرونانک نے جو کہا ہے اسے یاد کریں
دو ملایو‘پنج گن کریو‘ بیس سے دیواڑا
” 2136“میں ”2 “ ملائے تو ”2138 “ ہو گئے اسے پانچ گنا ایک تو ہے
10690=5+2138
اب اشلوک کا کہنا یہ ہے کہ ہمیں اسے ” 20“ پر تقسیم کرنا ہے۔ 10690 کو 20
سے تقسیم کیا تو حاصل تقسیم ” 534“ ملا جبکہ جو باقی بچا وہ دس ہے۔ بابا نانک کی اگلی بات بھی سن لیجئے کہتے ہیں
جو بچے سو چھ گن کریو‘ اس میں چھ دیو ملا
ہمارے پاس صرف ” 10“ بچے ہیں انہیں چھ گنا کیا
(6x10)
تو یہ ” 60“ ہو گیا۔ اشلوک کے مطابق اس میں چھ ملانا ہے۔ یوں عدد ہوا ” 66“
یہ تو وہی عدد ہے جو ”اللہ کے نام سے حاصل ہوا تھا۔
جب یہ عدد میرے سامنے جگ مگ جگ مگ کرنے لگا تھا تو حیرت اور محبت سے میری آنکھیں اسے بوسے دینے لگی تھیں اور پھر میں نے کئی لفظ لکھے تھے ان کے اعداد بنائے۔ بابا گرونانک کے اشلوک کے مطابق انہیں عمل سے گزرا اور ہر بار جو عدد حاصل ہوا وہ ہی تھا جو اللہ کا عدد ہے۔
آپ بھی تجربہ کر دیکھیں یقینا آپ اسی نتیجے پر پہنچیں گے جس پر میں پہنچا ہوں اور یقینا آپ میری طرح اس اشلوک کو مسلسل گنگنائے چلے جائیں گے۔
اس سے معنے توحید کے نانک جھٹ پٹ سمجھے جا
(روز نامہ پاکستان اسلام آباد جمعة المبارک 2۔ مارچ 2001ئ)

غزل دشمن نظم گوستیہ پال آنند....آخری چٹان تک

غزل دشمن نظم گوستیہ پال آنند....آخری چٹان تک
محمد حمید شاہد

گوپی چند نارنگ کا کہنا ہے
” کون وقت کو جل دے سکتا ہے“
اور اسی سانس میں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ستیہ پال آنند کا معاملہ دوسرا ہے۔ دوسرے معاملے والے ستیہ پال آنند کے بارے میں گوپی چند نارنگ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”آنا“ فتح کرنا اور چھا جانا جیسے صرف ان پر جچتا ہے کسی دوسرے پر نہیں کچھ اور اطلاعات جو اسی وسیلے سے ملی ہیں وہ یوں ہیں۔
ادب سے ان کا رشتہ نصف صدی پرانا ہے۔
عمر ستر برس سے تجاوز کر چکی ہے۔
شروع شروع میں ہندی سے یاد اللہ تھی
پھر کافی برس درس و تدریس اور انگریزی ادب کی سیاحی میں گزرے
بارہ برس پہلے انہوں نے اردو ادب کی دنیا میں باقاعدہ قدم رکھا۔
یہ اطلاعات دینے کے بعد گوپی چند نارنگ نے جو لکھا وہ اس قدر دلچسپ ہے کہ ہو بہو نقل کرنے کو جی چاہتا ہے۔
”....انہوں نے اردو ادب کی دنیا میں قدم رکھا تو خود مجھے شک تھا کہ پختہ عمر کا یہ عشق کتنی مدت تک چل سکے گا انہوں نے تابڑ توڑ.... جس طرح مجموعے چھاپے اور بازی بدل بدل کر جس طرح اردو نظم کی کشت خشک کی آبیاری کی تو اس نے نہ صرف مجھ کو بلکہ بہتوں کو ششدر کر دیا.... لرزے ہے موج نے تری رفتار دیکھ کر“۔
ہمیں ستیہ پال آنند کا گزشتہ برس مجموعہ ملا تھا ”مستقبل‘ آمجھ سے مل“ اور کچھ ہی دن پہلے ایک مجموعہ ملا ہے....”آخری چٹان تک“.... واقعی ششدر کر دینے والی بات ہے۔
ڈاکٹر ستیہ پال آنند گزشتہ مختصر عرصے میں ‘ اس سے پہلے چار مجموعے دے دچکے ہیں ‘ دست برگ‘ وقت لا وقت‘ آنے والی سحر ‘ بند کھڑکی ہے ‘ اور لہو بولتا ہے۔ یوں نظموں کے مجموعوں کی تعداد چھ ہو جاتی ہے۔ اردو میں فکشن کے حوالے سے انہوں نے سات کتابیں د ی ہیں۔ انگریزی ہندی اور پنجابی میں متعدد کتب دینے کے بعد اردو میں یہ بھر پور تخلیقی سفر نہ صرف ان کی بے پناہ تخلیقی قوت کا پتہ دیتا ہے یہ امر بھی واضح کرتا ہے کہ وہ اردو میں ہی سہولت محسوس کرتے ہیں۔
اردو نظم کے موضوعات پر وہ بے پناہ تنوع لے کر آئے ہیں‘ عجب فنکارانہ تازگی ہے کہ آپ کو گرفت میں لے لیتی ہے اور نظم کہانی کی طرح اپنا آپ قاری پر کھولتی چلی جاتی ہے کہانی کا خارجی منظرنامہ عصری صورتحال سے جڑا ہوتا ہے جب کہ اندر کہیں روحوں سے مکالمہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس تجربے کے لئے جس لسانی لحن کو چنا ہے اس کے باعث وہ غزل کے رموز و علائم کے سائے سے بھی بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں....یہ راستہ ابھی پامال نہیں ہوا‘ لہذا نیا اور اجنبی سا لگتا ہے خصوصا وہاں جہاں لفظوں کے معلوم معانی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ایک تصویر بنتی ہے‘ بالکل نئے رنگوں سے مگر لطف یہ ہے کہ نقوش معلوم دیومالا‘ تاریخ‘ لوک کہانی یا پھر روایت کے ہوتے ہیں مگر نئے رنگ اسے بالکل مختلف کر دیتے ہیں۔ ان کا بنیادی شعری تنازع معلوم سے نامعلوم کی سمت جست ہے.... وہی نا معلوم جسے چھونا بھر پور شعری تجربے ہی سے ممکن تھا۔
ڈاکٹر ستیہ پال آنند اپنے اس بھر پور تخلیقی تجربے کے ساتھ ساتھ غزل کے انہدام کا بیڑا بھی اٹھائے ہوئے ہیں جب بھی اور جہاں بھی موقع ملتا ہے اس پر خوب برستے ہیں۔ دو تین برس پہلے جب اپنی جنم بھوی کورٹ سارنگ‘ تحصیل تلہ گنگ ضلع چکوال آئے تھے تو راولپنڈی‘ اسلام آباد‘ پشاور‘ لاہور اور کراچی میں منعقد ہونے والے ادیبوں کے متعدد اجتماعات میں اس موضوع پر خوب خوب بولے تھے۔ بہت دھول اڑی تھی۔ جوانہوں نے کہنا تھا کہہ کر امریکہ پلٹ گئے تھے۔ مگر باز گشت آج تک سنائی دے رہی ہے۔ ”مستقبل آمجھ سے مل“ میں یہی معاملہ یوں اٹھایا گیا ہے کہ انہوں نے وہ مضمون جو ”اپنی ششٹی پورہ سماردہ“ یعنی ساٹھ برس پورے ہو چکنے پر پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ بھارت میں منعقدہ تقریب میں پڑھا تھا‘ کتاب کا دیباچہ بنا دیا ہے۔ غزل کو روندتا ہوایہ مضمون اگر چہ ان کے نقطہ نظر کی بھر پور وضاحت کرتا ہے مگر اس تخلیقی تجربے سے متعارف ہونے سے پہلے ہی فردا میں الجھا دیتا ہے جس میں بے پناہ وسعت‘ تازگی اور تنوع ہے۔ ”آخری چٹان تک“ میں کوئی دیباچہ نہیں ہے یوں آپ برا ہ راست نظموں سے ملاقات کرتے ہیں۔ اس کتاب کی بعض نظموں کے عنوانات ہی پوری نظم کا سا لطف دے جاتے ہیں۔
سچ تو سانپ ہے.... تصویریں کب عمر رسیدہ لگتی ہیں.... وقت کی دیمک چاٹ گئی ہے.... ساری کتاب پڑھنے کے لائق ہے۔ افتخار امام صدیقی نے بجا طورپر کہا کہ” یہ تمام نظمیں اردو کی جدید نظمیہ شاعری کو ایک نیا شعری وجدان دے سکتی ہیں“۔
غزل کے انہدام اور نئے شعری تجربے پر اصرار کے لئے ”آخری چٹان تک“ میں ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے نظم ہی کا وسیلہ چنا ہے۔ وقت مسافر (Time Traveller) سے مکالمہ اسی سلسلے کی نظمیں آپ کی نذر کرتا ہوں۔
پہلی نظم ہے“غزلوں کی چیونگم اور کاکروچ“....
”مستقبل میں شعروسخن کی کیا حالت تھی‘ مستقبل سے لوٹ کر آنے والے‘”وقت مسافر“ سے جب یہ پوچھا‘ تو‘ وہ کچھ جھینیا اور پھر بولا‘ قدم قدم اکڑوں چلنا‘ پھر لفظوں کو چیونٹوں کی طرح پکڑ کر‘ شعروں میں بھر لینا‘ کالی دال میں کالے کنکرچننے کے مترادف ہے تو‘ لیکن بھائی‘ اردو میں پچھلی صدیوں میں‘ شاید ایک کروڑ سے کچھ اوپر ہی غزلیں لکھی گئی ہوں گی، شاعر بےچارے ہر بار نئے موضوع کہاں سے ڈھونڈتے؟ تشبیہیں بھی بنی بنائی ڈھیروںغزلوں میں رکھی ہیں‘ کوئی وسیلہ باقی ہے تو صرف یہی ہے‘ اک دوجے سے چبی چبائی چنگم مانگو‘ اور پھر سوچو‘ اور پھر سوچو‘ اور پھر سوچو آج کا شاعر اور غزل کا رسیا مستقبل کا شاعر‘ دونوں چنگم سے چبکے بس کا کروچ ہیں!
”دیسی گڑ کی نظمیں“ اس سلسلے کی دوسری نظم ہے۔
”....وقت مسافر ‘ زور زور سے ہنسنے لگا‘ پھر پھوٹ پھوٹ کے رویا‘ تو‘ اک لمحہ ٹھہر کر میں نے پوچھا ‘ روتے کیوں ہو؟ بولا‘ میں نے آج سے دو صدیاں پہلے کی سیر بھی کی تھی‘ شاعر دو صدیاں پہلے کے‘ سب درباری‘ خلعت پوش‘ وظیفہ خوروں کے زمرے کے ‘ایک عجیب مخلوق تھے بھائی‘ قندپارس کے سب رسیا‘ فارس پر مرمٹنے والے‘ ملک عجم کو قبلہ مان کے‘ مشق سخن کرتے تھے سارے‘ اپنے وطن میں کیا کچھ تھا تب‘ اس کا کوئی خیال نہیں تھا‘ عرفی ‘ سعدی ‘ حافظ اور نظیری‘ نام کئی معراج سخن تھے‘ لیکن سب تھے ملک عجم کے ‘ ان کا ڈنکا ہی بجتا تھا‘ کیا نظیر نہیں تھا؟ میں نے اس سے پوچھا‘ اس اکبر آباد‘ آگرہ کے اودھی شاعر کا‘ آخر کیا رتبہ تھا‘ روتا اس لئے ہوں بھائی‘ اس بےچارے کو توجاہل‘ جان کے سب نے تھو تھو کی تھی‘ عید ملن ‘ ہولی‘ دیوالی‘ میلوں ٹھلیوں کا یہ شاعر‘ فارس کے گزماپ سے کیسے ماپا جاتا؟ ”ریچھ کا بچہ“‘”روٹی“‘ یا” بنجارہ نامہ“ لکھنے والا‘ ان کے من کو کیسے بھاتا؟‘ یہ نظمیں تو دیسی گڑ تھیں‘ قندپارس کے رسیا شاعر لوگوں نے ‘ ان نظموں کو دیسی سمجھا‘ روتا اسی لئے ہوں بھائی ‘ ہنستے کیوں ہو وقت مسافر؟ میں نے پوچھا‘ ہنسنے جکی اک وجہ مکرر یہ ہے بھائی‘ مستقبل میں اس اکبر آباد‘ آگرہ کی شاعر کی‘ کچھ ایسی پہچان بنی ہے‘ نئے نئے گوشوں پر اک درجن سے اوپر نئی کتابیں لکھی گئی ہیں‘ پچھلے‘ وقتوں کا یہ شاعر‘ مستقبل میں چوٹی کا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے‘ ہنستا اس لئے ہوں بھائی!
تیسری نظم (جو اس سلسلے کی آخری نظم بھی ہے) کا عنوان ہے”وقت کی دیمک چاٹ گئی ہے“۔
”شعر و ادب کی تاریخیں تو کافی لکھی گئی ہوں گی‘ تب؟ مستقبل سے لوٹ کے آنے والے سے جب یہ پوچھا تو وقت مسافر ہنس کر بولا ‘ ہاں‘ چھ سات تو لکھی گئی ہیں‘ کس کس کا چرچا ہے ان میں؟‘ آج کے جانے مانے شاعر تو سب ہوں گے؟ میں نے پوچھا‘ کچھ تو ہیں پر....‘وقت مسافر کچھ جھجکا‘ پھر ہنس کربولا‘ نام و نمود کے بھوکے‘ جھوٹے ‘ نقلی شاعر‘ القابوں کی خاطر اپنے فن کا سودا کرنے والے‘ بڑے بڑے عہدوں کے پیچھے بھاگنے والے ‘ حاکم وقت کی جھولی اٹھا کر چلنے والے‘ ردونفی کے وقت کے اس بے رحم عمل سے کیسے بچتے؟‘ ایسے ناشاعر جن کا بے حد چرچا ہے‘ جن کے نام کے طرے ہین‘ قومی اعزاز ملک کی جھالر ٹنگی ہوئی ہے کہ ان لوگوں کا شعر ادب کی تاریخوں میں نام نہیں ہے‘ ان کے نام کہاں ہیں آخر؟ میں نے پوچھا‘ ان صفحوں کو ‘ جن پر یہ سب لکھے تھے‘ وقت مسافر ہنس کر بولا وقت کی دیمک چاٹ گئی ہے“۔
یہ نظمیں آپ نے یہاں پڑھ لی ہیں.... ایک غزل دشمن شاعر کی براہ راست نظمیں مگر میری گزارش ہے کہ.... اگر آپ غزل سے محبت کرتے ہیں تو کتاب پڑھتے ہوئے ان نظموں کو قطعا نہ پڑھیں.... اگر آپ ایسا کر سکے تو آپ بھی ان کی دوسری نظموں سے بھر پور حظ اٹھائیں گے اور گوپی چند نارنگ کی ہم نوائی کرنے لگیں گے کہ ستیہ پال آنند کا معاملہ ہی دوسرا ہے
”سو ٹکڑوں کا ایک معمہ
ان ٹکڑوں کو احتیاط سے
سوچ سمجھ کر‘ جانچ بانچ کر
آپس میں پیوست کریں‘ تو
ستیہ پال آنند کی صورت
(خیروشر کا ایک مرقع)
ان سے شاید آشکارہو!“