Friday, March 6, 2009

احتساب اور نیا کھاتہ

احتساب اور نیا کھاتہ
محمد حمید شاہد

پاکستانی سیاست کی مختصر ترین تاریخ میں جو کہ فقط نصف صدی پر محیط ہے متعدد مواقع ایسے ائے جب قومی دولت لوتنے والوں پر ہاتھ ڈالنے کا مطالبہ ہوا۔ اس نصف صدی کے نصف آخر میں تو اس ضمن میں باقاعدہ قانون سازی بھی کی گئی ۔ ادارے قائم ہوئے بڑے بڑے مگر مچھ پکڑے گئے مقدمات چلے‘ پھر حکومت بدل گئی قومی مجرم ہیرو ہو گئے‘ نئے مجرم کٹہروں میں لائے گئے‘ ثبوت نہ ملنے کا بہانہ ہوا اور نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات نکلا۔ ایک بار پھر عوام کو فوری ریلیف دینے کی بجائے احتساب کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے بھی ترقیاتی بجت اور عیر ملکی قرضوں میں خورد برد کی تفصیلات طلاب کر رہے ہیں اور ائندہ امداد کو کڑے احتساب اور وصولیوں سے مشروط کر رہے ہیں ایسے میں مجھے جیفرے آرچر کا ایک افسانہ شدت سے یاد ا رہا ہے‘ اس سے پہلے کہ افسانے کی بات کی جائے‘ اپ کو بتاتا چلوں کہ جیفرے آرچر ۰۴۹۱ءمیں پیدا ہوا تھا‘ آکسفورڈ کے ویلنگٹن سکول اور بریزنیوز میں تعلیم پائی اور پھر سیاست کے خرزار میں جا نکلا۔۹۶۹۱ءمیں ضمنی انتخاب جیت کر برطانوی دارالعلوم کا سب سے کم عمر ممبر پارلیمینٹ بن گیا۔ وہ ۶۷۹۱ءتک جممبر پارلیمینٹ رہا۔ اس کی متعدد کتب شائع ہو کر قبول عام کی سند پا چکی ہیں۔ جس کہانی کا میں ذکر کرنے جا رہا ہوں وہ اس کے مجموعے ''A TWIST IN THE TAIL''میں ہے۔
”اکاﺅنٹ“ (نیا کھاتہ) اس کہانی کا نام ہے اور اس میں جو منظر دکھایا گیا ہے اگرچہ وہ نائیجیریا کا ہے تاہم نام اور مقامات بدل دیئے جائیں تو مین مین اپنے ملک جکا لگنے لگتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ جب مسٹراگناٹیئس اگر بی کو نائجیریا کا وزیر خزانہ بنایا جاتا ہے تو یہ وہ عرصہ ہوتا ہے جب ہر طرف مایوسی کا عالم تھا۔سترہ سال کے عرصے میں سترہ وزیر خزانہ بدل چکے تھے۔ جو بھی آتا تھا قومی خزانہ لوٹنے والوں کے ہاتھ ٹریپ ہو جاتا تھا۔ اگرچہ نئے وزیر خزانہ نے آتے ہی رشوت خوری ‘ بدعنوانی اور مالی بدانتظامیاں ختم کرنے کے لئے فوری موثر اور سخت اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا تھا مگر لوگ مایوس تھے کہ یہی کچھ ایک مدت سے کہا جا رہا تھا۔ تاہم نیا وزیر خزانہ بد دل ہونے کی بجائے پورے جوش سے مصروف ہو گیا۔ کئی بدعنوان لوگوں کو جیل بھجوا دیا اس میں وزارت خوراک کا اہلکار‘ پولیس افسر اور دوسرے سرکاری ملازم بھی شامل تھے۔ قومی دولت کا کچھ حصہ وہ یوں واپس لانے میں کامیاب بھی ہو گیا اور لوگ اس کے کارناموں کا اعتراف کرنے لگے۔ سربراہ مملکت بھی اس کی کارکردگی سے بہت خوش ہوا۔ایک ملاقات میں وزیر خزانہ مسٹر اگناٹئیس نے خیال ظاہر کیا کہ عیر ملکی کمپنیوں کی طرف سے وصول کی جانے والی رشوت سوئس بینک کے نجی حسابات میں جمع ہو رہی ہے تاہم اس نے اعتراف کیا کہ فی الحال اس ضمن میں اس کے پاس ثبوت نہیں ہیں۔سربراہ مملکت نے وزیر خزانہ کو اضافی اختیارات دے دیئے تاکہ وہ ان ملک دشمنوں کی نشاندہی کر سکے۔
کہانی میں بتایا گیا ہے کہ اس نے زور و شور سے مگر انتہائی رازداری کے ساتھ نئی مہم کا آغاز کر دیا۔ سوئس دارالحکومت کے ایک غیر معروف ہوٹل میں قیام کے دوران اس نے بینکوں کی فہرست کا جائزہ لیا جو اس کے ملک کے خفیہ اداروں نے اس مقصد کے لئے بنائی گھی۔ وہیں سے اس نے ایک بینک کے صدر سے اسی روز ملاقات کا وقت طے کیا اور اپنے بوسیدہ بریف کیس سمیت وہاں پہنچ گیا۔ اس کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ بینک کے صدر کو اس نے اپنی حکومت کی طرف سے دیئے جانے والے خصوصی اختیارات کا حکم نامہ دکھایا اور کہا کہ اسے اس کے ملک کے سربراہ نے نائجیریا کے باشندوں کے خفیہ حسابات کا کھوج لگانے کے لئے بھیجا گیا ہے اور اس ضمن میں اسے ان کی مدد چاہئے تھی۔ بینک کے صدر نے نائجیریا کے وزیر خزانہ اور خصوصی سفیر کو جواب دیا.... ”مجھے یہ راز ظاہر کرنے کی آزادی نہیں ہے“۔
یہاں پہنچ کر کہانی مزید دلچسپ ہو جاتی ہے دلیلیں دی جاتی ہیں’ بینک کا نام راز میں رکھنے کا وعدہ ہوتا ہے لالچ دیا جاتا ہے کہ نائجیریا اور سوئٹزر لینڈ کے درمیان تمام لین دین اسی بینک کے ذریعے کیا جائے گا حتی کہ دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ آ ئینندہ اس کی حکومت اس بینک سے سارا لین دین بند کر سکتی ہے۔ مگر بینک کے صدر کا ہر بار ایک ہی جواب ہوتا کہ”بینک کے راز ظاہر نہیں کئے جا سکتے “ مسٹر اگناٹئیس ہمت نہیں ہار تا’ قائل کرنے کے لئے دلیلوں کا سلسلہ جاری رکھتا ہے’ گفتگو میں کئی اتار چڑھاﺅ آتے ہیں یہاں تک کہہ دیا جاتا ہے کہ سوئس سفیر کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دلوا دیا جائے گا مگر ہر بار اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حتی کہ مسٹر اگناٹئیس الجھتا ہے اور کوٹ کی اندرونی جیب سے چھوٹا سا پستول نکال کر بینک کے صدر مسٹر برگر پر تان لیتا ہے اور کہتا ہے کہ اسے ہر صورت میں اس کے ملک کے خفیہ اکاﺅنٹس رکھنے والوں کی فہرست چاہئے ورنہ اس کی کھوپڑی اڑا دے گا۔ صدر کا اسسٹنٹ قریب آیا تو وہ اسے بھی نشانے کی زد پر رکھ لیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگلا شکار تم ہو گے لہذا فورا فہرست فراہم کرو’ مگر وہ بھی معذرت کر لیتا ہے تاہم دونوں خوف سے کانپ رہے ہوتے ہیں۔
اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے دراصل وہی کہانی کا المیہ ہے کہانی کا وزیر خزانہ مسٹر اگناٹئیس پستول پیچھے ہٹا کر واپس جیب میں ڈال لیتا ہے بینک افسروں کو بیٹھنے کی درخواست کرتا ہے اور اپنا پرانا بریف کیس کھول کر ان کے سامنے کر دیتا ہے جس میں پچاس لاکھ ڈالر سلیقے سے رکھے ہوئے تھے۔ دونوں بینک افسران حیرت سے اسے دیکھتے ہیں تو وہ کہتا ہے۔
” کیا میں اپنا کھاتہ آپ کے بینک میں کھول سکتا ہوں“۔
کہانی یہاں ختم ہو جاتی ہے.... مگر کہانی یہاں ختم کب ہوتی ہے ایک سوال ہمارے سامنے چھوڑ جاتی ہے کہ آخر کب تک اس طرح کے کھاتے کھلتے رہیں گے۔

No comments:

Post a Comment