Sunday, March 22, 2009

خواب ساتھ رہنے دو

محمد حمید شاہد
خواب ساتھ رہنے دو/ اخلاق احمد


سائیکالوجی کی ایک کتاب میں معروف ماہر ِ نفسیات آر۔ ایل۔ گریگوری R. L. Gregory نے ایک ایسے شخص کی کیس ہسٹری دی ہے جو ادھیڑ عمر کو پہنچ چکا تھا۔ نظر سے محروم ہونے کے باوجود اس نے گذشتہ زندگی بڑی کام یابی سے گزاری تھی۔ بڑا ذہین شخص تھا کہ سارے مسائل کمال خوبی سے سلجھا سکتا تھا۔ معذوری اس کے روزمرہ کے معمولات اور مشاغل میں کبھی رکاوٹ نہیں بنی۔ وہ سفید جھڑی پکڑے اکیلے گھومنے نکل جاتا۔ چلتی ٹریفک ہوتی تو بھی بہ سہولت سڑک پار کر لیتا تھا۔ آر۔ ایل۔ گریگوری نے سہولت کے لےے اس شخص کا نام ایس بی رکھ دیا تھا۔
ادھیڑ عمر ایس بی باغ میں درختوں کے پتوں کے بیچ سے گزرتی ہوا کی سرسراہٹ سنتا، پرندوں کے نغموں سے محفوظ ہوتا، فرنیچر کی مرمت کرتا، چھوٹی موٹی چیزیں بناتا اور یوں اپنی چھوٹی سی تاریک دنیا میں وسعت پیدا کےے چلا جاتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ اس کی وسیع ہوتی دنیا سکڑنے لگی۔ یہ تب ہوا جب اس کے دل میں یہ خواہش کناروں سے بھی چھِلنے لگی تھی کہ کاش وہ دیکھ سکتا۔
بات صرف کاش تک محدود رہتی تو شاید زندگی اتنی جلدی فیصلہ کن موڑ پر نہ پہنچتی۔ اس نے آگے بڑھ کر آپریشن کرانے کا فیصلہ کر لیا۔ آپریشن کام یاب رہا اسے بصارت مل گئی۔ ایس بی کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اس کے بعد آر۔ ایل۔ گریگوری نے جو کچھ بتایا وہی تو اصل کہانی ہے مگر پہلے اخلاق احمد کی کہانی، جس کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ہمارے سامنے ہے۔
میں نہیں جانتا پہلے اور دوسرے مجموعے کے بیچ کتنے لمبے عرصے کی مسافت پڑتی ہے۔ تاہم میں یہ جان گیا ہوں کہ اخلاق احمد نے بیس برس اپنے اندر کی آنکھ بند رکھی وہ یوں کہ اس کا تعلق لفظ سے ہوتے ہوئے بھی نہیں رہا کہ صحافی کو تو واقعہ لکھنا ہوتا ہے۔ واقعہ ، جیسا کہ وہ ہوتا ہے، اس نےالگ رہ کر ، اس سے پرے کھڑے ہو کر۔ اور جب کوئی بے دھیانی میں ان سارے لفظوں کو اپنے اندر اُتر نے دیتا ہے تو وہ محض صحافی نہیں رہتا کہ واقعے میں خود شامل ہو جاتا ہے یا پھر واقعہ اس میں شامل ہو جاتا ہے۔ یوں بیچ سے خبر ضائع ہو جاتی ہے جو اخبار کا پیٹ بھر سکتی ہے یا پھر دوسرے معنوں میں صحافی کا پیٹ بھر سکتی۔ بیس برس کام یابی سے اخبار کا پیٹ اور اپنا پیٹ بھرنے والا جب اس عمر کے آس پاس پہنچتا ہے جس پر پہنچ کر ایس بی نے اپنی تُند خواہش کے سامنے ہتھیار ڈال دےے تھے اور جسے خود اس نے زندگی کا وہ مرحلہ قرار دیا ہے کہ جب جوانی کو مُڑ کر دیکھنا پڑتا ہے مگر بڑھاپا ابھی دور ہوتا ہے تو چپکے چپکے بدن کے اندر رستے لفظ کہانی میں ڈھلنے کی خواہش کرتے ہیں۔ اس خواہش کو آپ ایس بی کی اس خواہش کے مماثل قرار دے سکتے ہیں جو اس نے دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لےے کی تھی۔
اس کی بھی خواہش پوری ہوئی۔ اخلاق احمد بھی کام یاب رہا مگر اس کے بعد کی کہانی دونوں کے ہاں مختلف ہو جاتی ہے۔ اخلاق احمد نے اپنا مقدر یوں الگ کر لیا کہ اس نے کہانیوں میں در آنے والے سچ کو قبول کر لیا اور انہیں کہانی کا حصہ بننے دیا۔ پھر یہی کہانیاں اس کے لےے پناہ گاہ بن گئیں۔ اذیتوں کی برستی دھوپ بارش میں دن بھر جلتے بدن کو جب ہم رات نیند کے حوالے کرتے ہیں تو خوب پناہ گاہ بن جاتے ہیں۔
اخلاق احمد کا کہنا ہے ”یہی خواب سراسر افسانے ہیں۔“
”خواب ساتھ رہنے دو“ ایسے ہی افسانوں کی کتاب ہے۔ ادھیڑ عمری کے ٰوابوں سے بنی گئی پہلی کہانی کا عنوان ”بدنصیب“ ہے جو ان دو خوش نصیبوں کی کہانی ہے جو زندگی کو نئی معنویت دینے میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔ مہر النساء اور جما ل حسین کی یہ کہانی ائر پورٹ پر پہلے سے طے شدہ ”اتفاقیہ“ ملاقات سے شروع ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ ہم سب کو بھی، کہ جو ادھیڑ عمری کا عذاب بھوگ رہے ہوتے ہیں، اپنے اندر لپٹتی اور ادھیڑتی چلی جاتی ہے۔ کہانی کے آغاز میں محبت کی دو تکونوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ دو مرد اور ایک عورت یا پھر دو عورتیں اور ایک مرد۔ جمال حسین ایک ایسا مرد ہے جس کے لےے شاید مہرالنساءایسی عورت ہے جو شاید جمال ہی سے مکمل ہو سکتی تھی مگر دونوں مقدر کی ہونی شدنی کے ساتھ بندھے ہیں۔ جمال ایک ایسی عورت کے ساتھ تیرہ برس سے رہ رہا ہے جس کی کہانی سن کر مہر النساءاگرچہ یہ کہتی ہے کہ ”اس میں بیوی کا کیا قصور“ اور ”کیا احمقانہ بات ہے“ مگر اندر سے یقین کر لیتی ہے کہ جمال کا لمحہ لمحہ اذیت میں گزر رہا ہے اور خود مہرالنساءایسے شخص کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے جو محض بارہ سو روپے کا ساسسٹنٹ اکاو¿نٹنٹ تھا جس میں سے چھ سو روپے کا دودھ بچہ پی جاتا تھا اور پھر بھی توتا رہتا تھا۔ اس کی بیوی اور اس کی اپنی اولاد اس کے لےے فقط مالی بوجھ تھے وہ ان سے لڑتا جھگڑتا رہتا تھا مگر وہی شخص اس وقت مہربان ہو جاتا ہے جب مہر النساءکار آمد کموڈیٹی بن جاتی ہے کہ اب اس کی گریڈ سترہ کی تنخواہ اور سہولیات اس قدر ہیں کہ وہ اپنے دفتر سے بلا جواز چھٹی کر سکتا ہے۔ دیر تک سو سکتا ہے اب وہ بگڑتا نہیں، محبت کا اظہار کرتا ہے اور مہر النساءکا چڑچڑاپن برداشت کر نے لگتا ہے۔ حتّٰی کہ مہر النساءاس کو منصب سے گرادیتی ہے۔ کہانی ان دو تکونوں سے زندگی کی ایک نئی ڈائمنشن پر تیسری تکون کا انکشاف کرتی ہے تو ہم ادھیڑ عمر والوں کے ادھڑے چاک بھی سلنے لگتے ہیں۔ زندگی کی یہ تیسری ٹرائی اینگل وہ ہے جس کے ایک کونے پر جمال ہے دوسرے پر مہر النساءاور تیسرے پر دونوں کی محبت ۔
اخلاق احمد نے بڑی مہارت سے اس کہانی کو نفسیاتی سطح پر بنا ہے کچھ اسی قسم کے فکری مواد مگر قدرے مختلف بیانےے کی ایک کہانی ”گٹکا“ بھی ہے۔ یہ گٹکا کہانی کا مرکزی کردار گل ریز ہے۔ چھوٹا سا، موٹا سا اور گنجا سا۔ جس کی بیوی خوب صورت مہذب اور سوشل ہے مگر خود گل ریز ملٹی نیشنل کلچر کا حصہ ہوتے اور اس قدر خوب صورت بیوی کا حصہ ہوتے ہوئے بھی روشن آرا بیگم اور راجندر سنگھ بیدی پر مرتا ہے۔ اسی گل ریز نے گذشتہ ڈیڑھ دو سال کا عرصہ ایک ایسی عورت کی محبت میں گزارا ہے جو اسی کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔ یہ دوسری عورت خوب صورت نہیں ہے، سانولی، فربہ، بے ڈھب بدن والی عام سی عورت مگر ویسی ہے کہ جس کے ساتھ جیا جا سکتا ہے اور مرا بھی جا سکتا ہے بغیر کسی پچھتاوے کے۔ یہاں آکر جب زندگی اپنا اصل بھید کھولتی ہے تو سرشار کر دیتی ہے اور ایسے میں ایک دوست کا دوسرے دوست کو بے تکلفی میں لات مارنا مزہ دے جاتا ہے۔
کہانی ” محمد حسین کی خود کشی“ میں عیار محبت کا دل کش تذکرہ ہے۔ اس تذکرے میں ایک ایماندار افسر ہے جسے محبت کی چمک میں پاو¿ں دبانے والی بیوی ، روح میں گداز پیدا کرنے والی ننھی سی گڑیا اور پل پل دعائیں دینے والی ماں حتّٰی کہ کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ اگر یاد رہتا ہے تو فقط ریحانہ قریشی کا ملیح چہرہ اس کے گالوں کی ابھری ہوئی ہڈیاں اور آنکھوں میں دوستانہ مسکراہٹ کی جگمگاہٹ۔ اس لش لش کرتی محبت میں محمد حسین اپنی خود کشی کا سامان اپنے ہاتھوں سے یوں کرتا ہے کہ کلفٹن کی مرکزی شاہراہ کا ایک ایسا پلاٹ ڈیڑھ کروڑ میں قریشی بلڈرز کو الاٹ کر دیتا ہے جسے وہ بعد ازاں گیارہ کروڑ میں بیچ ڈالتے ہیں۔ تب اسے لگتا ہے وہ اندر سے مر رہا ہے اور جب وہ بیماری کی رخصت سے پلٹتا ہے تو وہ خود نہیں ہوتا اس کی لاش ہوتی ہے جس کے سامنے بیٹھا تعمیراتی سیٹھ کَہ رہا ہوتا ہے۔ ”حکم کریں سرکار“
دل نشیں بیانےے اور واقعات کی مناسب ترتیب نے قدرے پرانی کہانی کو نیا پن دے دیا لیکن اب مجھے ایک ایسی کہانی کا تذکرہ کرنا ہے جو سچ مچ نئی ہے بدن کو چیر کر اندر گھُس جانے والی اس نویں نکور کہانی کا تانا بانا ”باو¿ وارث کم گُم شُدگی“ سے متعلق تحقیقی رپورٹ کے اقتباسات سے بُنا گیا ہے جس کا کلائمکس ڈکیتی والی ایک رات ہے جب پستول کی کالی نالی کے سامنے باو¿ وارث کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں وہ معافیاں مانگتا ہے، منتیں کرتا ہے، روتا ہے گڑگڑاتا ہے کہ وہ مرنا نہیں چاہتا اس لےے کہ اسے اپنے بیٹے کا کام یاب شخص دیکھنا ہے، اسے بیٹی کو رخصت کرنا ہے اور وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ اس کی بیوی بے سہارا ہو جائے۔ جب یہ منظر بدلتا ہے تو بیٹی اور بیوی کی نظروں میں چھپی نفرت باو¿ وارث سے برداشت نہیں ہوتی اور بیٹے کا یہ کہنا کہ ” آدمی کو اتنا بزدل نہیں ہونا چاہےے“ اس کی عمر بھر کی محبت کو رائیگاں کر دیتا ہے۔ وہ خیال کرتا ہے کہ اچھا ہوا جو محبت ماپنے کا آلہ ایجاد نہیں ہوا اگر ایسا ہو جاتا تو اور زیادہ دکھ ہوتا کہ اتنے ٹن محبت ضائع ہو گئی۔ پھر وہ ان کی زندگیوں سے یوں نکل جاتا ہے کہ باقی فقط نامکمل تحقیقاتی رپورٹ رہ جاتی ہے۔ اخلاق احمد نے پوری حیات پر محیط بے لوث محبت کے رائیگاں چلے جانے والے لمحے کو کمال چابک دستی سے گرفت میں لیا ہے۔
برباد ہو اجانے والی محبت کے پہلو بہ پہلو باقی رہ جانے والی محبت کی ایک کہانی بھی اس مجموعے میں جگہ پا گئی ہے یہ کہانی ”ایک محبت بھری عورت“ ہے۔ یہ مصطفی زیدی کے ہم نام ایسے شاعر کی کہانی ہے جو دراصل شاعر نہیں ہے مگر شاعر کی سی زندگی گزارنے کی طلب کے بیچ ہی مر جاتا ہے۔ یہ کہانی اس کی بیوی رابعہ کی بھی ہے جو اپنے شوہر کے مرنے کے بعد بھی اس کی محبت میں زندہ رہنا چاہتی ہے اور اس کا مجموعہ کھٹمنڈو سے اس لےے چھپوانا چاہتی ہے کہ پاکستانی صحافی شہباز حسین نے اِسے یقین دلا دیا ہے کہ وہ اس صدی میں سب سے طاقت ور اردو شاعر ہے۔ عورت کی محبت تو ازل سے اتنی ہی روشن، اتنی ہی اندھی اور اتنی ہی پُرجوش رہی ہے مگر سچ جانےے تو یہ کہانی شہباز حسین کی بھی ہے جس کے پاس رابعہ کے لےے ایسے مشکوک لفظ ہیں جو کتابوں کے فلیپ لکھنے والوں کے پاس اکثر ہوتے ہیں۔ میں ان پیشہ ور فلیپ لکھنے والوں کو عجب عجب پینترے بدلتے دیکھا ہے۔ ان کا لکھا ان کے کہے سے کوسوں دور ہوتا ہے۔ اتنا دور کہ بیچ میں سچ کہیں گم ہو جاتا ہے۔
مجموعی طور پر اخلاق احمد کی کہانیاں ایسے نفسیاتی الجھاوے ہیں جو بڑی سہولت سے اپنا سِرا قاری کے ہاتھ میں تھما کر خود بخود کھُلتے چلے جاتے ہیں۔ ”تھینک یو مولوی صاحب“ اس کی ایک عمدہ مثال ہے جو ایک ایسے قاتل کہانی ہے جسے کچھ ہی دیر بعد پھانسی چڑھ جانا ہے او ر وہ مولوی صاحب سے پوچھنا چاہتا ہے کہ اندھے قتل کا اعتراف کر کے اور سزائے موت پا کر وہ کہیں خود کشی کا مرتکب تو نہیں ہو رہا اور کیا خود کشی کا کوئی جائز راستہ بھی ہو سکتا ہے؟
اخلاق احمد جب اپنی کہانیوں میں عجیب عجیب سوالات اٹھاتا ہے تو ادھیڑ عمر کو پہنچ بصارت پانے والے ایس بی کا کیس یاد آجاتا ہے اور اسی کیس کے حوالے سے آر ۔ ایل ۔ گریگوری نے جو کہا تھا اسے کَہ دینے کا مرحلہ آ گیا ہے۔ ہوا یوں کہ ایس بی کو جب بصارت مل گئی تو اس کے بَرتے ہوئے حِسی ادراک اور نئے بصری ادراک کے بیچ اتنا بُعد تھا کہ اس کا فاصلہ پاٹتے پاٹتے وہ تیسرے سال ہی مر گیا۔
تاہم میں نے جو شروع میں یہ کَہ دیا تھا کہ اخلاق احمد کا مقدر الگ ہے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ کم حوصلہ نہیں ہے اور باتدبیر بھی ہے۔ اس نے طویل عمری کا حیلہ یوں کیا ہے کہ کہانیوں کو اپنی کھڑکی سے اندر آنے دیا ہے اور کہانیوں کے بیچ اپنی زندگی کے سچ کو بھی داخل ہونے دیا ہے۔ ایسے میں مجھے گراہم گرین کا کہا یاد آرہا ہے۔ اس نے لکھا تھا : ”لکھنا طریقِ علاج ہے۔“
اس نے یہ بھی لکھا تھا: ”بعض اوقات مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو لکھتے نہیں، شعر نہیں کہتے، مصوّری نہیں کرتے، اس پاگل پن ، جنون اور ہیبت ناک خوف سے جو انسانی صورت حال میں موجود ہوتا ہے، فرار کی راہ کس طرح نکال لیتے ہیں۔“
اخلاق احمد نے نہ صرف ہیبت ناک انسانی صورت حال سے فرار کی راہ نکال لی ہے، زندگی کے سچ کے لےے خوابوں کی پناہ گاہ بھی ڈھونڈ نکالی ہے اور یہ ایسی پناہ گاہ ہے جس میں ادا کیا جانے والا ہر لفظ کمبی عمر پا لینے کا وظیفہ کرتا ہے۔


No comments:

Post a Comment