Sunday, March 22, 2009

میر ظفر حسن کی نظمیں

محمد حمید شاہد
میر ظفر حسن کی نظمیں

میر ظفر حسن کی نظمیں پڑھتے ہوئے میں اپنے ایک دوست کو خوب رویا ہوں ‘ اس دوست کو جو بہت گًنی تھا‘ تراجم کئے ‘ انگریزی اور اردو میں نظمیں لکھیں اور ساتھ ہی ساتھ اتنی پی کہ پھیپھڑے سیٹیاں بجانے لگے ‘ حتی کہ وہ مستقل بستر پر پڑ گیا ‘ پیشاب کی نالی لگ گئی کہ گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ‘ آکسیجن پہ آگیا کہ سانس لینا محال تھا‘ نرخرہ چیر کر غذا اندر ڈالی جاتی ‘ آخری دنوں میںیوں بے سدھ پڑا رہتا یا تڑپتا کہ کلیجہ منہ کو آتا تھا ۔ میں روز ہسپتال جاتا‘ اس کی بیوی کی ہمت کو دیکھتا جو عبادت جان کر اسے بچا لینے کے جتن کر رہی تھی‘ مگر وہ بچا نہیں ‘مر گیا۔ وہ بات جس پر میر ظفر حسن کی نظموں نے رلایا وہ میرے دوست نے اپنی موت سے ڈیڑھ دو سال پہلے کہی تھی اور اب اس میں اس کی موت کا مقطع لگ چکا ہے۔
میر ظفر حسن کی نظمیں پڑھتے ہوئے میں نے اسی چمک کے جھپاکے بار بار دیکھے ہیں ‘ یوں کہ اپنے مر چکے دوست کی آنکھوں کے چمکتے خواب اور آنسو میری آنکھوں میں بھر گئے تھے۔ وہ بات کیا تھی ؟ جو مجھے اب یاد آرہی تھی‘ صاحب پہلے وہ سن لیں ۔ جس دوست کا میں تذکرہ کر رہا ہوں وہ اور میں ایک ہی گلی میں رہتے رہے ہیں ۔ بھابی کو تب گاڑی ریورس کرنا نہ آتی ‘ میرا دوست گاڑی کو ہاتھ نہ لگاتا تھا کہ اس کے ہاتھ اور دل ایک سا تھ کا نپنے لگتے تھے۔ میرے گھر پر پہنچ کر گلی بند ہو جاتی تھی ۔ اور اس سے پہلے‘ یعنی ڈھلوان پر ‘اپنے گھر کے سامنے بھابی گاڑی نہ روک پاتی تھی ۔ گاڑی گلی کو کاٹتی دیوار کے سامنے رک جاتی تو بھابی ‘ ہارن بجا تی یا ہمارے گھر کی کال بیل دے دیتی ‘ میں سمجھ جاتا مجھے ریورس کرکے گاڑی ڈھلوان پر چڑھاکر ان کے گھر پورچ میں پارک کرنی ہے ۔ ایک روز یونہی گاڑی پارک کر چکا تو بھابی نے لگ بھگ چہکتے ہو ئے کہا ‘ سنو تمہارے بھائی نے پینا چھوڑ دی ۔ میں نے بے یقینی سے کہا اس کی طرف دیکھا تواس کی آواز لرزنے لگی تھی کہا‘ ” اب تو کئی روز ہو گئے ہیں ‘لگتا ہے شاید مستقل “ ۔ مجھے یقین نہ آیا تھا لہذا اس کے کمرے میں پہنچا وہ کتابوں کا انبار میں غرق تھا میں پوچھا تو اس نے جو کہا وہ‘ وہی ہے جو میر ظفر حسن کی نظمیں پڑھتے ہوئے یا د آیاہے۔ اس نے کہا تھا ”یہ جہاں تک مجھے لا سکتی تھی لے آئی ‘ اب تو گرائے جاتی ہے “
میر ظفر حسن کی نظموں کا مطالعہ مادے کی سطح پر زندگی بتانے والوں کے باطنی کرب کا سارا بھید کھول دیتا ہے ۔ بظاہر چمکتی لشکتی زندگی جس میںشراب جیسی لڑکیاں بھی ہیں اور رس بھری جوانیاں بھی بہت جلد اس نشے کی صورت ہو جاتی ہیں جو اندر سے آدمی کو کھوکھلا اور تنہا کر دیتی ہیںیہ تنہائی میر ظفر حسن کی نظموں میں احساس کی باریک اور نازک سطحوں پریوں عمل کار ہوتی ہے کہ روح کی تاروں میں تانت اور آنکھوں میں آنسو بھر جاتے ہیں ۔
”کہیں کچھ کھو گیا ہے“ کے دیباچے میں میر ظفر حسن نے تنہا ہو جانے والے انسان کا المیہ اس تگ و دو سے جوڑا سے جس میں آدمی زیادہ سے زیادہ چیزیں گھر میں بھر لینا چاہتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ اس دوڑ میں اس کا رنگ ‘ اس کا آہنگ اور اس کی روح سب کے سب اس سے بچھڑ گئے ہیں۔ میرظفر حسن کے تجزیے کے مطابق ا نسانیت کو تباہی کی طرف دھکیلنے والی وہ سو ملٹی نیشنل ادارے ہیں جو دنیا کا ۰۸ وی صد سرمایہ ہتھیائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ساری دنیا کو بازار بنا دیا ہے ۔ وہ ‘جو زندگی کی بنیادی ضروتیں تھیں صاحب ‘ وہ تو ثانوی ہو گئیں اور جن کے بغیر زیادہ بہتر طریقے سے جیا جا سکتا تھا اسے زندگی کا نشہ بنا کر اندر سے آدمی کو کھوکھلا کر دیا گیا ہے ۔ اشتہارات ‘ لذیذ اشتہارات‘ بے پناہ اشتہارات اور خدا پناہ زندگی کو اشتہاری بناڈالنے والے اشتہارات‘ انہوں نے افکار میں رخنے ڈال دئےے ہیں ۔ میرظفر حسن کا کہنا ہے کہ اس سب کچھ نے ہمیں زندگی کی بھر پور تمنا اور اصل لطف سے دور کر دیا ہے ۔ ہم کسی اور کے خوابوں کی تکمیل میں جتے ہوئے ہیں ظلم ہوتا ہے ‘ وسائل کے حصول کے لیے ظلم ہوتا ہے ‘ ہم اس ظلم کو اپنی کھلی آنکھوں سے ہوتا دیکھتے ہیں مگر اشتہارات نے ہمارے خوابوں اور آدرشوں کو یوں بدل دیا ہے کہ ہم اس پر چیختے ہیں نہ احتجاج کرتے ہیں۔
ایک اور بات جو مجھے میرظفر حسن کی نظموں میں نظر آئی وہ یہ ہے کہ وہ تخلیقی سطح پر تجرید کی بجائے ترتیب کی طرف پوری دیانت داری سے متوجہ ہیں ۔ اپنے اس فطری رویے کے سبب وہ نظموں کو معنی کی ایک جہت دینے میں کامیاب ہوئے ہیں ‘ ایک سطر سے ایک سے زائد معنی تلاشنے اور متن کو زبان کی اپنی اس مابعد الطبعیات سے جوڑنے کا چلن ان کے ہاں خال خال آیا ہے جو حسن عسکری نے شناخت کیا تھا اور سچ تو یہ ہے جو اسے سمجھ لیتا ہے اس کی تخلیق بھدوں بھرا خزینہ ہو جاتی ہے ‘تاہم میر ظفر حسن نے کہانی کی سطح پر نظموں کو برت کر اس میں کہانی کا بھید داخل کر دیا ہے ۔
”بس اک کمرے کا گھر تھا وہسب اس کمرے میں سوتے تھے کیا شور تھا ‘کیا ہنگامہ تھاکیا لمبی تان کے سوتے تھے اک خواب تھا ‘اپنا کمرہ ہو اک مہکا مہکا بستر ہواب تو کئی کمرے ہیں گھر میں اک تنہا ٹھنڈا بستر ہے سونے میں ڈھلا ‘کانٹوں سے بھرا تنہائی سے تنہا کیسے لڑیں پھر اک کمرے میں بس جائیں !“ ( واپسی کہیں کچھ کھو گیا ہے )
میں میر ظفر حسن کی نظموں کی سادگی اور متن کے اندر بہتے معنی کی راست ترسیل کے سبب کہہ آیا ہوں کہ معنوی دبازت سے کہیں زیادہ وہ معنی کی تظہیر کے قائل ہیں لیکن اس سادہ سی نظم کو میر ظفر حسن نے گزرتی زندگی کے عذابوں کی علامت بنا دیا ہے۔ میں نے اس نظم کے اکلوتے کمرے کو اپنی تہذیبی شناخت کے طور پر دیکھا ہے جو بظاہر تنگ تھی‘ اس میں چمک بھی نہ تھی ‘ وہ سادہ تھی اور اس میں نئی دنیا کا بہت کچھ نہ سہی ‘ زندگی سے لبریز چہچہے تھے محبت اور اخلاص تھا اور ایک دوسرے کے لیے جینے کی تمنا تھی ۔ اور یہ بہت سے کمروں والا گھر اس تہذیب کی علامت ہو گیا ہے جسے تہذیب کہنا خود اِس لفظ کی توہین کے مترادف ہے ‘ سونے سے ڈھلے اس نئی تہذیبی دھارے میں ہمارے اپنے دکھ سکھ بہہ گئے ہیں اور انسانیت فرد کی سطح پر تنہا ہو گئی ہے ۔
میر ظفر حسن کی نظمیں انہیں دکھوں اور سکھوں کو تخلیقی سطح پر برتتی ہیں اور اپنے پڑھنے والوں کے دلوں کو دکھ اور درد سے بھر دیتی ہے ۔ وہ جو ان کے ہاں احساس کی مربوط صورت نکلتی ہے‘ خیال کی سطح بھی مربوط رہتی ہے اور متن کہانی کی طرح مکمل ہو جاتا ہے اس نے ان کی نظموں میں شاعر کو شعور کی سطح پر بہت توانا دکھایا ہے ۔ تنہائی کا نوحہ کہتے ہوئے بھی وہ پوری کتاب میں فرد اور معاشرے سے جڑے ہوئے نظر آتے۔ میں سمجھتا ہوں یہی ایک تخلیق کار کی زندگی کی علامت ہوتی ہے ۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ میر ظفر حسن کی نظموں کی دوسری کتاب ہے یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس تخلیقی علاقے میں دور تک چلنے اور دیر تک رہنے کی تمنا ان کے ہاں موجود ہے ۔ امید کی جانی چاہئے کہ ان کا یہ سفر اسی اخلاص سے آگے کی سمت جاری رہے گا۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment