Saturday, March 21, 2009

لبابہ عباس کے افسانے

محمد حمید شاہد
لبابہ عباس کے افسانے

راجندر سنگھ بیدی کا کہنا تھا کہ افسانے کا کوئی کلیہ قائم نہیں کیا جاسکتا ‘اس کی نظر میں جتنے لکھنے والے تھے ‘ یا پھر جتنی کہانیاں تھی اتنے ہی ان کے لکھنے کے طریقے تھے ۔ دنیا کو اس نے پرانے فلسفیوں کے قول کے مطابق ایک تخیل قرار دیا تھا اور تسلیم کیا تھا کہ ہم جو شروع اور آخر کے انداز میں سوچتے ہیں اس کی حقیقت کو پوری طرح پا ہی نہیں سکتے ۔ صاحب‘ جسے پا نہیں سکتے اس کا دھندلا سا خاکہ تو بنا سکتے ہیں۔ بیدی کا کہنا تھا کہ ’خیال‘ کو’ دام خیال‘ میں لانے کے لیے ہم نے ایک افسانوی سازش تیار کی ہے ۔ سو جتنی کہانیاں ہیں اور جتنے کہانیاں لکھنے والے ہیں اتنی ہی کہانی کی صورتیں ہیں ۔
لبابہ عباس نے اوپر تلے چھپنے والے اپنے دو مجموعوں” سمجھوتے کی چادر“ اور ” دھند میں راستہ“ میں جس افسانوی سازش کا حیلہ کیا ہے اس میں کہانی کا بہاﺅ تند اور معنیاتی ترسیل دھار بہت تیز ہے ۔ بظاہر جنسی حِسّیت اس کے افسانوں کا نمایاں پہلو لگتا ہے تاہم میں نے محسوس کیاہے کہ اس کی کہانیوں کا بنیادی سروکار خالص جنس نہیں بلکہ خاندان کے انسٹی ٹیوشن کا استحکام ‘اس کی بقاءاور اس حوالے سے سر اٹھانے والے اندیشے ہیں ۔
جس آئیڈیل خاندان کا تصور لبابہ کے افسانوں سے متشکل ہوتا ہے اس میں ماں کا کردار مرکزی ہے ایسی ماں کا کردار جو اپنی نسل کو اپنے پرکھوں کا تہذیبی سرمایہ منتقل کر نا چاہتی ہے ۔ خاندانی انسٹیٹیوشن کی بقا پر زور دیتی کہانیوں کے ضمن میں آپ ”لالٹین روتی ہے‘ ‘”وہ چار برس“ ” دولے شاہ کا چو ہا“ ’ مخملیں کانٹے “ ” اثاثہ کچے خوابوں کا“ جیسی کئی اور کہانیوں کو بھی دیکھ سکتے ہیں جن میں کہیں تو خاندان کو تحلیل ہوتے ہوئے دکھ کی وہ کیفیت ابھاری گئی ہے جس میں سینے پھٹ جاتے ہیں اور کہیں ان وجوہ کو اجاگر کیا گیا ہے جو مشترکہ خاندانی نظام میں دراڑیں ڈال رہے ہیں ۔ لبابہ کو وہ ماں بہت محبوب ہو گئی ہے جو بیٹوں کی اپنی خوشبو کو سنبھال سنبھال کر رکھنا چاہتی ہے ۔ کہانی ”خوشبو کا سفر“کا گھرانہ بھی اس تہذیبی خوشبو کو بچا لینے کے جتن کر رہا ہے ۔ ”رانی سیدانی“ صرف اس عورت کی کہانی نہیں ہے جو شوہر کے انتقال کے بعد امام بارگاہ کا نتظام سنبھال لیتی ہے بلکہ یہ اس عورت کی کہانی ہے جو رشتوں کو بچا سکتی تھی اور نہیں بچا پائی تھی۔ اسی طرح افسانہ” منے میاں “میں مرد کے اس رویے کو موضوع بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے عورت باغی ہو کر گھر توڑ سکتی ہے۔
جدید زندگی کا آشوب لبابہ کی کہانیوں کا باقاعدہ موضوع بن گیا ہے ۔ افسانہ ”وہ چار برس“ کا شاہجہان مرزا اسی آشوب کو بھوگتے بھوگتے سو گیا ہے۔ افسانہ ”دل مجروح“ کا علی جاوید بچوں کو آسائشیں فراہم کرتے کرتے موت کے دروازے پر دستک دینے لگتا ہے ۔ اس کی اولاد جو نئی زندگی کے آشوب کا لقمہ ہو چکی ہے وہ اس کی زندگی کی دعائیں مانگنے کی بجائے‘ باپ کی موت کو اپنے اپنے ٹائم ٹیبل میں درست درست بٹھانے میں جتی ہوئی ہے ۔ وہ مرنے والے کے لیے موت کا وہ وقت مقرر کر نا چاہتی ہے جس سے ان کی زندگیوں کے اپنے معمولات متاثر نہ ہوں۔ ’ افسانہ ’ ’اثاثہ کچے خوابوں کا“ میں گھر کی عورت مر گئی ہے اور شوہر سوچ رہا ہے کہ اس مہینے کیوں مرگئی اس مہنے تو بچوں کی پچاس ہزار فیس دی گئی ہے ۔ لبابہ نے اپنے افسانوں میں سجھایا ہے کہ زندگی کی روز بروز بڑھتی ضرورتیں کیسے پاکیزہ محبت اور سچے رشتوں کو نگل رہی ہیں ۔
یہ جو میں نے آغاز میںلبابہ کے ہاں جنسی حسیت کا ذکر کیا تھا تو اس کا سبب اس کی ایک دو نہیں کئی کہانیاں ہیں ۔ ”ایک اور راستہ “ ”اطمینان“ ”دو آنسو “” بازار کی بیٹی“ ” زخمی کو کھ“ ” گھر کے بھیڑیئے “ ” بزدل“ ” آدھی چارپائی“ ”مساج“ ” ریت کی دیوار“اور ”بے آئینہ چہرے “ جیسی اوپر تلے کئی کہانیاں۔ جنس کو یوں باقاعدہ مسئلہ بنا کر اورسنجیدگی سے پلٹ پلٹ کر” مردانہ وار“ لکھتے چلے جانا واقعی ہمت اور حوصلے کی بات ہے۔
یہیں ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ” بے آئینہ چہرے ‘ جیسی خالص جنسی مسئلہ بیان کرتی کہانی کو چھوڑ باقی کہانیوں کو بغور دیکھا جائے تو ان میں جنس بنیادی مسئلہ بنتی ہی نہیں ہے ۔ اس حوالے سے یہاں میں منٹو کی ایک کہانی ”کالی شلوار“ کے ساتھ جوڑکر لبابہ کی کہانی”دوآنسو“ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ کہ یہ اس ضمن کی عمدہ مثال ہے ۔ پوری کہانی نہیں بس دونوں کی آخری کی سطریں ۔ منٹو نے سلطانہ کو بندوں کے بدلے کالی شلوار دلانے والے شنکر کی پتلون پر شکنیں تک دکھائیں تھیں جب کہ کچھ ایسی ہی شکنیں لبابہ نے نازیہ کی ساڑھی پر بھی دکھا دی ہیں ۔اس ساڑھی پر جس کا بلاﺅز کاٹ کر نازیہ نے بالشت بھر کرلیا تھا ۔ منٹو کی کہانی کا شنکر بڑا شاطر تھا مگر لبابہ نے نازیہ کو مجبور لکھا ہے۔ تاہم وہ اتنی مجبور نہیں ہے کہ باپ کے مرنے کے بعد باقی رہ جانے والے گھر کو نہ بچا سکے۔ نازیہ کے لیے ایف اے کی سند کام نہ آسکی تو اُس نے جسم کو جارجٹ کی ساڑھی میں سے اچھال کر بکنے والی جنس بنا لیا اور قیمت وصول کر لی۔ یوں یہ کہانی مارکیٹ کی ان قوتوں کے منہ پر طمانچہ بھی ہو جاتی ہے جو جسم کو جنس بنا دیتے ہیں۔
”بازار کی بیٹی“ ”دل کا باغ“ ” ہزار کا نوٹ“ شناس کلینک “ اور ”دل مجروح“ جیسے افسانوں میں بھی اسی منڈی والے معاشرے کی نوٹوں میں تلتی ہوئی اخلاقیات کے چوغے کو تار تار کیا گیا ہے ۔ افسانہ ”بازار کی بیٹی مےں منڈی والے معاشرے میں انسانی وجود کی بے توقیری اورمقدس رشتوں کی پامالی کو انتہائی سفاکی سے دکھایا گیا ہے۔ اس کہانی کو لکھتے ہوئے لبابہ منٹو کے محبوب کرداروں کے مقابل ہو گئی ہے۔ اور اس نے کوٹھے کا لذیذ منظریوں سہولت اور سادگی سے لکھ دیا ہے کہ سب کچھ جیسے قاری اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوتاہے۔ کہانی بتاتی ہے کہ نتھ اتروائی کا ضیاءالدین سے بیس لاکھ کا معاوضہ وصول کرکے اپنی کوکھ میں تخم رکھوانے والی نگار پرجب اس کی بیٹی زیب النساءکی نتھ اتروائی کا مرحلہ آتا ہے توتقدیر ضیاالدین کے بیٹے شکیل کو سامنے لے آتی ہے۔ ضیاالدین کی نسبت سے شکیل زیب النساءکا بھائی ہے ۔ یہ وہ تقدیر ہے جو اس کہانی میں لبابہ نے لکھی ہے اور ایسا لکھ کر بتا دیا ہے کہ منڈی کی عورت کا کوئی بھائی اور کوئی بیٹا نہیں ہوتا ۔ افسانہ ”ہزار کا نوٹ“ میںہزار کا نوٹ مادے سے مات کھاتی نسل کے لیے تو بہت اہم سہی مگر انسانی رشتوں کے خوشبو اور خالص پن کو اپنی روح میں اتار لینے والے باپ کے لیے وہ فقط کا غذ کا ایک پرزہ ہوتا ہے ۔”دل کا باغ“ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو ماہ رخ کی ماں مرنے کے بعد اس کے باپ اور بھائی کو اپنا بزنس پارٹنر بنالیتا ہے کہ پیسے کی تہذیب نے محبت کا رشتہ قائم کرنے کا یہی قرینہ بتایا ہے۔ تاہم یہ الگ بات کہ وہ جیت کر بھی ماہ رخ کوہار جاتا ہے۔ اسی ہار سے لبابہ نے اس تہذیبی ورثے کی بقا کا احساس اجاگر کیا ہے جس میں مادہ اور مارکیٹ کو محبت مات دے دیتی ہے۔
میں نے بڑے بڑوں کو ڈینگیں تو بہت مارتے دیکھا ہے مگر جب انہیں راست کہانی کی تلوار جیسی تیز دھار حقیقت کے مقابل ہونا پڑا تو ساری ہَیکڑی بھول گئے ‘ ہاتھ پاﺅں پھول گئے کہ جس معاشرے میں رہتے تھے اس کی چولی کیسے اتاریں۔ آڑ لینے کو ادھر ادھر کی کئی باتیں لکھ ڈالیں‘کہیں منظر نامہ‘ کہیں کرداروں کا حلیہ یا قامت اور کچھ نہ ہوا تو علامت یا تجریدکی ڈھال بنائی کہانی اور قاری کا دھیان بہکایا اور چپکے سے لپٹ لپٹا کر وہ سفاک بات کہہ دی جس کے لیے انہوں نے کہانی لکھی ہوتی ہے ۔ قاری کو کہانی کے ایسے بھید بھنور‘ ایسی گولائیاں گہرائیاں اورقوسیں تلاش کرنے کو متن کی دبازت میں اترنا پڑتا ہے یا پھر اس کی کھال چھیل چھیل کر اتارنی پڑتی ہے ۔ خیر ‘ یہ کوئی اتنی معیوب بات بھی نہیں کہ اس سارے عمل کا اپنا ایک لطف ہوتا ہے اور وہی لوگ اس سے آگاہ ہیں جو سہج سہج آگے بڑھنے ‘ قریب ہونے اور قربت پالینے کا قرینہ اور حوصلہ رکھتے ہیں ۔ لیکن میں توسفاک سماجی حقیقتوں کے مقابل حوصلے سے ہونے کی بات کررہا تھا وہی حوصلہ جو منٹو کے پاس تھا اور جس کے بارے میں منٹو کا دعوی تھا کہ یہ حوصلہ کسی عورت کے پاس نہیں ہو سکتا۔ تو صاحبو خبر ہو کہ یہ حوصلہ لبابہ عباس کے پاس ہے۔ اور وہ بھی اتنی حیرت انگیز حد تک کہ اس نے منٹو کے دعوے کوجھٹلا کر رکھ دیا ہے ۔ اب رہی بات منٹو والے سلیقے کی ‘ تو یوں ہے کہ جو کمر کس لینے کا حوصلہ رکھتی ہو اور کسی بھی بات کو راست بیانیے میں کہہ ڈالنا اس کے لیے مسئلہ نہ بن رہا ہو تو بات کہنے کا سلیقہ کتنے کوس پرے رہ جاتا ہے‘ سو اِدھر سے امید بندھتی ہے اور بجا طور پر بندھتی ہے ۔
٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment