Friday, March 6, 2009

پروین طاہرکی نظمیں

محمد حمید شاہد
پروین طاہرکی نظمیں

یہ کل ہی کا واقعہ لگتا ہے کہ پروین طاہر نے کسی اِجلاس میں اَپنی نظم پہلی بار تنقید کے لیے پیش کی تھی اور میرے ہاں ”ایک نئی آرورہ“ کے عنوان سے مضمون ڈَھل گیا تھا۔ مجھے اَطالوی اَساطیری رَوایت کی آرورہ یوں سوجھی تھی کہ میں نے پروین طاہر کی نظم ”Aurora“ کو پڑھا تو وسطی اور بالائی بلدوں کے اُدھر نوراَفشانی ہونے لگی تھی ‘وہیں سے جہاں اُفق کی لالی پھوٹتی ہے ‘کبھی اَبلق ‘کبھی گلابی اور کبھی جامنی کہ میرے گمان میں وہی توAurora تھی‘ طلوع کی دِیوی جو پورے منظر کو مادر ِمشفق کی طرح نور کے ہالے میں لے لیتی تھی.... اور آج جب کہ اُس کی نظموں کا مجموعہ ”تنکے کا باطِن “ میرے سامنے ہے تو مجھے اِس پر طمانیت کا اِحساس ہوتا ہے کہ سب سے پہلے پروین کی نظم کو لکھ کر تسلیم کرکے میں نے کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ میں نے اُس کی ساری نظموں کو بار بار پڑھا ہے اور ہر بار یوں ہوا ہے جیسے پوری کائنات نے گھومتے گھومتے اَپنا رُخ اَپنے اس آغاز کی سمت کرلیاہے ‘ اُس جانب جہاں سے وہ طلوع ہوئی تھی۔ وہیں‘ جہاں سے اَبلق روشنی پھوٹتی ہے ‘ ایسی روشنی جو محض ابلق نہیں رہتی کبھی گلابی ہوتی ہے اور کبھی جامنی حتّٰی کہ یہ ِاحساس دل میں جاگزیں ہو جاتا ہے کہ اپنے تخلیقی سفر کے اس دورانی¿ے میں پروین نے اُس نور پچکاری چھوڑتے آغاز سے بھی اُدھر جست لگادی ہے۔ وہاں‘ جہاں خلا ہے اور اُسے اِس خلا میں خود راستہ بنانا ہے:
مِرے اَگلوں کو‘ مجھ کو
گم شُدہ خوابوں کی منزل پر
بِنا آواز جانا ہے
صَدا کے معبدوں کی
تیرگی کو چھوڑ کر پیچھے
خلاﺅں میں نیا رَستہ بنانا ہے۔
(آواز سے باہر)
صداﺅں سے آباد معبد پروین کے ہاں تیرگی کی صورت ظاہر ہوئے ہیں ۔ اُسے آوازوں سے پرے کا من بھاو¿نا منظر لبھاتا ہے ۔ وہی جس کے اندراُلوہی خامشی میں بے انت ‘ ناپیدا کنار جمالِ یارکی وحی اُترتی کِن مِن بارشیں ہوتی ہیں۔ جہاں پوری لگن اور پورے آہنگ کے ساتھ دِھیان باندھنا اور دِھیان کے قیام کو کھینچے چلا جاناممکن ہو جاتاہے ۔ مگر یہ علاقہ تو صداﺅں کے معبد وں کی دِیوار کے عقب میں پڑتا ہے:
پسِ دیوار معبد کی
سُریلی گھنٹیاں بجتی رہیں
الوہی بندھنوں میں
باندھ کر رکھنے کے سندیسے
ملائم آنکھ کے نم میں
امر ہونے کی تاباں خواہشیں
سجتی رہیں
سُریلی گھنٹیاں بجتی رہیں۔
(ذرا پہلے)
ان نظموں میں پروین کا غالب رجحان پیش رَفت کا نہیں بلکہ بھید بھرے اورپُرسکون اَبدی حیات بخشنے والے آغاز سے پہلے والا علاقے کی ناغول میں معتکف ہونے کا ہے یوں جیسے بیج کے اندر کہیں راس جنین اور بیخچہ معتکف ہوتے ہیں۔ اُس کی نظم ”منتظر“ کی ”ساکت خدائی“ سے جس متحرک خدائی کو وزیر آغا نے نکال لیا ہے ‘ واقعہ یہ ہے کہ وہ تو پروین کے ہاں کہیں بھی اُس کا بنیادی سروکار نہیں بنتی۔ اسی نظم کو لیجئے ۔ اِس میں تو آغاز سے پہلے کے منظر اور پگھلاﺅ سے پہلے کے اِنجماد کی تجسیم کے باوصف اِنتظار کے تَحجرُّ کو دکھایا گیا ہے ۔ اِس نظم کا عنوان سجھاتا ہے کہ شاعرہ کو خاموش مناظر کے بکھرنے اور منجمد مناظر کی برفیںپگھلنے تک نیچے ترائی میں ساکت خدائی کا حصہ بن کر رہنا ہی مرغوب ہے ۔
یہ جو آدمی کو اس کے مقدر نے ساکت خُدائی سے باہر دھکیل کر آوازوں کے شور میں پھینک دیا ہے تو یوں ہے کہ یہ شاعرہ کے ہاں متشکل ہونے والے تصوراتی اِنسان کا مرغوب علاقہ نہیں ہے ۔ بے شک اس آدمی کی نسوں میں پیش رَفت کی عادت دوڑ رہی ہے مگر شاعرہ نے اپنی نظم ”آواز سے باہر“ میں خیال ظاہر کیا ہے کہ کئی صدیوں سے آوازوں کے باو¿لے کتوں نے اِنسانی روحوں کو بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر اور بھونک بھونک کر جو آگے لگا رکھا ہے تو پیش رفت کا وتیرہ اِسی جبر نے اُس کے خون کا جزو بنایا ہے۔ اُس کی نظم Auroraمیں دیکھیے یہی پیش رفت گزیدہ آدمی کتنا ہلکان ہوتے دکھایا گیا ہے۔
یہ صدیاں اُگلتی تھکاوٹ کے مسکن
جہاں وسوسے چار سو بس گئے ہیں
ڈری سہمی سہمی سی چلتی ہے دھڑکن
( Aurora)
اِس نظم میں آگے چل کر شاعرہ نے اُسی آغاز سے پہلے کے منظر نامے کو خاموشی اور سکوت کی بجائے چہکار سے بدل کر اپنی اس خوب صورت نظم کادلکش حصہ بنادیا ہے ۔ اب یہاںالوہی چُپ کی تانت نہیں بلکہ بیتے یُگوں کی رو پہلی رُتیںہیں جن میںگُلابوں کے تختے مہک رہے ہیں اور ہری خواب راتوں کی نارنجی صبحوںمیں نیلے نیلے پرندے چہک رہے ہیں ۔ یہ نظم آخر میں یوں مکمل ہوتی ہے:
گماں ہے کہ شاید وہ دِن پھر سے آئیں
ترے جنگلوں کے دَرختوں پہ گاتی
پھریں فاختائیں
اُلوہی سُروں میں مقدس سی تانیں
لگائیں ہوائیں
مناظر سبھی نور میں ڈوب جائیں۔
(Aurora)
یوں دیکھیں تو نور میں ڈوبنے کا یہ منظر بھی نور کے پھوٹنے سے پہلے کا بنتا ہے ۔ نظم Reversion میں یہی نور پھوٹنے سے پہلے کی کائنات شاعرہ کا دِل اور اُس کی اپنی آنکھ ہو جاتی ہے ۔ شاعرہ کا کہنا ہے کہ روپ سنگھاسن کا عجب منظر اُس کی آگہی پر کُھل گیا ہے:
اوج نہیں ‘ اِک دلدل تھی
سطح پہ کیسا دھوکا تھا
نیل کمل کے پھولوں کا
خواب سنہرا گم تھا

اپنے من کو جانے والا
رستہ سب سے اچھا ہے
اپنی آنکھ ہی اپنے آپ کا
سب سے بہتر مسکن ہے۔
(Reversion )
صاحب ‘اگرچہ یہ بہ سہولت شناخت کیا جاسکتا ہے شاعرہ کے ہاں الوہی سکوت کے کیا معنی ہیں مگر اس کے ثانویں تخلیقی سروکاروں سے اس کے معنیاتی انسلاک کی صورتیں تلاش کرنے والوں کو عین اُس وقت دھوکا ہو سکتا ہے جب وہ ان نظموں کا سطحی مطالعہ کریں گے ۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو یقین جانیے پروین نے اپنی نظموں میں معنی کے جس اوج کو برتنے کے جتن کیے ہیں وہ اس کی تلچھٹ کو بھی نہ پا سکیں گے۔ بجا کہ یہ ایک خاتون کی نظمیں ہیں ۔ اور یہ بھی درست کہ ان نظموں میں کہیں پرانی حاملہ کا ذِکر ہوا ہے کہیں آنول نال کا ۔ ناری جیسا لفظ بھی دھوکا دینے کو موجود ہے ۔ کہیں کہیں مردوں کے معاشرے میں عورت ذات کے عدم تحفظ تلاش کا التباس بھی ہوتا ہے ۔ ان نظموں میں پاگل پُروا قریہ قریہ گھوم کرسنگی ڈھونڈنے کی خبر بھی دیتی ملتی ہے۔ اپنے آپ کو سمیٹ لینے والے مرد کا حوالہ بھی اسی کتاب کی ایک نظم میں آیا ہے جس کی خوشبو ‘ آنکھوں ‘دل اور اس مرد کی باتوں کے سراب سے جینڈر کی تفریق کااشتباہ پیدا کرتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پروین نے اِن سارے وسیلوں کو ایک بر تر سطح وجود کی تلاش میں اِیک ٹول کے طور پر اِستعمال کیا ہے ۔ مثلاً دیکھئے ایک ہی نظم میں اس کے ہاں زماںاور مکاں کی کیسے صورتیں بدلتی ہیں ۔
کہاں جا رہے ہو
سیہ روشنی کی چکا چوند دھارا کے دوجے کنارے پہ
اندھا کنواں ۔۔۔۔اک قدم فاصلہ

کہاں جی رہی ہو
کھلی آنکھ کے دل نشیں خواب کی
ایک تصویر میں
جس کی تعبیر ازلوں سے معدوم ہے

کہاں ہنس رہے ہو
پس ِ قہقہہ
آڈیبل رینج سے بھی بہت دور نیچے
کراہوں کی لہریں فنا ہو رہی ہیں

کدھر دیکھتے ہو
ستاروں کے پیچھے نئی کہکشائیں
جہاں پر تجازب بھی اِس پار جیسا
ری پلشن بھی جو تم جہاں بھوگتے ہو
کہاں جا رہے
(کہاں)
صاحب‘ اس نظم میں نئی سائنسی حسیت بہت خوبی سے تخلیقی اظہار کا قرینہ بنی ہے۔ اِس قرینے کا لطف اپنی جگہ مگر اس لطف کے باوصف یہ بھی تو دیکھئے کہ یہ نئی حسیت آج کے اِنسان کو دھکیل کر جس انجام سے ہمیں دوچار کر رہی ہے اس پر شاعرہ صاد کرنے کو کسی طور تیار نہیں ہے ۔ اِس نظم کو اس کی ایک اور نظم ”لمحہ بے کار چلا جاتا ہے“ سے ملا کر پڑھا جائے تو جس خودآگہی سے شناسائی ہوتی ہے اس میں جدید حسیت کی ساری مہم ایک اُجلے لمحے سے مات کھا جاتی ہے۔ یہ روشن شاعت وہ ہے جو ہم اپنی وقت گزیدگی کی دُھن بھولے ہوئے ہیں۔ یوں دیکھیں تو اگر ایک طرف پروین کی دلچسپی ”ماقبل “سے ہے تو عین اُسی لمحے اُس کی تخلیقی توجہ کا دوسرا علاقہ” مابعد “بنتا ہے۔ یہ”مابعد“کسی اِختتام یا فنا کا حصہ نہیں بلکہ کہیں تولاتعین کا علاقہ ہے کہیں لازمان Iinfinity اورPerpetuity کا۔ وہاں تک وہ اِس آوازوں ‘ رنگوںاور خواہشوں سے آلودہ زمان سے ہو کر نہیں جانا چاہتی بلکہ عین وہاں سے جست لگا کر پہنچنا چاہتی ہے جہاں الوہی خاموشی میں بدنوں پر کشف اُترتا ہے :
شکریہ اے روشنی
اے کائناتی روشنی
تیرا کمالِ کشف ہے
کرنوں کا ہالہ پھینک کر
کھینچا مجھے پاتال سے ۔
(تیرا کمالِ کشف ہے)
اور آخر میں چلتے چلتے آپ کی توجہ پروین کی شاعری میں موجود دو اعداد کی طرف دلانا چاہوں گا ۔ ان میں سے ایک عدد تین کا ہے ۔ کوئی بھی نظم اُٹھا کر دیکھ لیں اس میں تین کیفیتں یا تین جہتیں کسی نہ کسی صورت میں ظاہر ہو جاتی ہیں ۔ یہاںزمان کی تین صورتیں ہیں ۔ ماقبل ‘مابعد اور ان دونوں کناروں کے کنگروں سے بندھا ہوااور رَبر کی طرح تنا ہوا وقت بھی بار بار آپ کے سامنے آتا ہے ۔ آوازوں کی تین صورتیں ہیں ‘وہی الوہی جو شاعرہ کو مسحور کیے ہوئے ہے ۔ شور زدہ آواز جس نے رواں وقت کو آلودہ کر رکھا ہے اور لازمان کو کھوجنے والی آوازیں۔ مَن کی اور دِھیان کی تین کیفیتیں بنتی ہیں تال والی ‘ توازن والی اور رواں دواں۔تیسری بھاوَنا تو پوری نظم کی صورت اس کتاب کا حصہ ہو گئی ہے ۔ میں جانتا ہوں کہ عدد تین کے مثبت معنی بنتے ہیں ۔ تو یوں ہے کہ یہی تین پروین کی نظموں میں آغاز کا الوہی طاق ہندسہ ہو گیا ہے۔ ایک متبائن عدد جسے کوئی دوسرا عدد پوری طرح تقسیم نہیں کرسکتا ۔
دوسراہندسہ ہے آٹھ ‘ پورا پورا تقسیم ہو جانے والا ۔ ایٹم کی طرح ٹکڑے ہو کر تباہی پھیلانے والا ۔ یہ عدد اگر چہ پروین کی نظموں میں کہیں ”اشٹم کے چاند“ کی صورت چمکتا ہوا برآمد ہوا ہے اور کہیں ”اَسون جل “ سے یوں‘ جیسے چوبیس ستاروں سے روشن ستارہ ”اَسونی“ برآمد ہوتا ہے مگر یوں ہے کہ یہ آٹھ کا عدد آدمی کے مقدر احاطے میں نور پھینکنے میں ناکام رہا ہے ۔ روشن تاریکی کا یہ پہلو دیکھ کر یہیں مجھے نہ جانے کیوں رابعہ بصری کی وہ دُعا یاد آرہی ہے جووہ رات اپنے مکان کی چھت پر جاکر عین اس وقت مانگا کرتی تھیں ۔ تب ‘ جب سارا عالم سوجایا کرتا تھا ۔
” اے میرے مالک‘ ستارے چمک رہے ہیں اور آدمیوں کی آنکھیں نیند نے مندمل کر دی ہیں مگر میں ہوں کہ اکیلی تیرے ساتھ ہوں۔ اے مالک ‘اگر میں دوزخ کے خوف سے تجھے طلب کرتی ہوں تو مجھے دوزخ میں جھونک دے اور اگر میرا مقصد جنت کا حصول ہے تو جنت سے محروم رکھ۔ تاہم اگر میں تیرے لیے مخلص ہوں تو مجھ پر اپنے لازوال حسن کو پوشیدہ نہ رکھ“
تو یوں کہ پروین کی نظم میں آغاز سے پہلے والا زمانہ جنت کی صورت آیا ہے اور لمحہ رواں دوزخ کا سا۔ وہ بار بار اپنے خلوص کے ناطے لازماں کے پوشیدہ حسن کے مقابل ہونا چاہتی ہے مگرہر بار بظاہر نکالی گئی جنت کو لپکتی ملتی ہے۔ اُس کی نظموں کا گہرا مطالعہ بتاتا ہے کہ جنت کی طرف اُس کا لپکنا اِس لیے نہیں ہے کہ وہ اس کی لمبی خامشیوں کو عافیت کی صورت تان لینا چاہتی ہے بلکہ اِس لیے ہے کہ وہاں کے الوہی پانیوں سے بدن کی اس آلودگی کو دھو پائے جو زمان سے اس کے وجود کا حصہ ہوئی ہے ۔ یوں سبُک ہو کر وہ لازماں کے لامتناہی حسن کو پانے کے لیے جست لگا نا چاہتی ہے ۔ رابعہ بصری کے سے اِخلاص کو پا نے کے جتن کرنے والی اِس شاعرہ کے ہاں معنی کی اِس جہت نے مجھے بہت نہال کیا ہے لہذا میں نے مستقبل میں بھی اس سے بہت سی اُمیدیں باندھ لی ہیں۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment