Sunday, March 22, 2009

سنگ بستہ

سنگ بستہ (افسانے) / طاہرہ اقبال
محمد حمید شاہد

جب آپ ٹھوس واقعات پر انحصار کرتی ایسی کہانی پر بات کرنا چاہیں گے جو کچھ کچھ باغی ہو، ذرا سی رومانی ہو، جس کے بہاو¿ میں نفسیاتی الجھنوں کی جھن جھن ہو اور جو سماج سے کُلّی طور پر یوں جڑی ہوئی ہو کہ اس کی حقیقت ہی نہ کھولے اس کے بخےے بھی ادھیڑتی چلی جائے تو سعادت حسن منٹو کو آپ وہیں پائیں گے .... راہ روکے ہوئے .... اور کچھ نہ کچھ کہتے ہوئے۔ منٹو کو حق پہنچتا ہے کہ وہ یوں راہ روک کر کھڑا ہو جائے۔ اور جو چاہے، جیسے چاہے کَہ دے۔ آپ اس سے اختلاف کرنا چاہیں سو بار کریں مگر اس کی بات سننا ہم پر لازم ہے کہ یہ حق اس نے کہانی کے بیانےے کی طنابیں کھینچ کر اور اس کی روشن لکیر کے سامنے موضوعات کا پرزم رکھ کر حاصل کیا ہے۔
گذشتہ دنوں میرے ساتھ یہ ہوا کہ جب میں ایک مرد افسانہ نگار کی وہ کہانیاں پڑھ رہا تھا جو عورت ذات کے گنجل کھولنے کے لےے لکھی گئی تھیں، منٹو آ موجود ہوا تھا۔
منٹو پھر آ موجود ہوا جب میں طاہرہ اقبال کے پندرہ افسانوں کا مجموعہ ”سنگ بستہ“ پڑھ رہا تھا۔
لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں مرتبہ منٹو کے ہونٹوں پر وہی جملے تھ تھرا رہے تھے جو اس نے دامودر گپت کی قدیم سنسکرت کتاب ”نٹنی متم “ کے اُردو ترجمہ ”نگار خانہ “ کے دیباچے میں لکھے تھے۔ میں منٹو کے لفظ دہرا دیتا ہوں:
” ....اور سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ ان تمام باتوں کو قلم بند کرنے والا ایک مرد ہے.... یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔ اس لےے کہ عورت چاہے بازاری ہو یا گھر یلو، خود کو اتنا نہیں جانتی جتنا کہ مرد اس کو جانتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عورت آج تک اپنے متعلق حقیقت نگاری نہیں کر سکی ۔ اس کے متعلق اگر کوئی انکشاف کرے گا تو مرد ہی کرے گا ....“
لیجےے صاحب! جو منٹو نے کہا تھا، میں ہوبہو دہرا دیا۔ لفظ لفظ اسی کا ہے۔ لہٰذا سارے گناہ ثواب کا حق دار بھی وہی۔ میں نے دہرایا بھی تو کلیجہ ہلتا ہے۔
تاہم مجھے اِن کلمات سے ہونٹوں کو یوں آلودہ کرنا پڑا ہے کہ یہ منٹو نے ایسے ہی کہے تھے۔
عورت اپنے بدن کی کھال کے اندر کیوں نہیں اترتی۔ شاید اس لےے کہ باہر ٹھہرنے اور ٹھہرے رہنے ، اسے سجانے، چمکانے اور جاذبِ نظر بنانے ہی میں اسے لطف آنے لگتا ہے۔
میں جب بھی عورتوں کی لکھی ہوئی عورتوں کے بارے میں کہانیاں پڑھتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے ان کے جملے اس پڑچھے کی مانند ہو گئے ہیں جس میں ماہل سے بندھے پانی سے بھرے ٹینڈے ایک ایک کر کے خالی ہوتے رہتے ہیں مگر اس کے اندر ایک قطرہ پانی بھی نہیں ٹھہرتا۔
تاہم میں بہت سے مرد افسانہ نگار گنوا سکتا ہوں جو عورت ذات کے خوب صورت پہناوے الگ کرتے ہیں، ان کی چکنی کھال کھرچ ڈالتے ہیں اور بدن کی پہنائیوں میں اتر کر روح پر لگے زخموں کو کاغذ پر اتاردیتے ہیں۔
ایسے میں منٹو کا کہا ہوا ایک ایک لفظ بہت یاد آتا ہے۔
تاہم گذشتہ کچھ عرصے سے یہ روایت ٹوٹی ہے اور ایسی خواتین افسانہ نگار تواتر سے سامنے آرہی ہیں جو صرف آئینہ ہی نہیں دیکھتیں اپنا وجود بھی دیکھتی ہیں۔ اپنا وجود جس کے اندر وہ اپنے تمام تر جذبوں ، حسرتوں، ناکامیوں اور خامیوں کے ساتھ موجود ہیں۔
طاہرہ اقبال کی کہانیوں کو پڑھتے ہوئے مجھے یوں لگا ہے جیسے وہ بھی عورت کے بھیدوں کو جاننے، اسے سمجھنے اور اس کے بجھارت وجود کو بوجھنے کا صدق ِدل سے تہیہ کےے ہوئے ہیں۔ ”سنگ بستہ“ کی کہانیاں پڑھتے ہوئے ایسے مواقع آتے ہی چلے جاتے ہیں کہ آپ چونکتے ہیں۔ دکھی ہوتے ہیں یا فقط لمبی سانس لے کر رہ جاتے ہیں۔ کہیں کہیں تو کہانی کی عورتوں کے ساتھ آپ افسانہ نگار خاتون کو بھی صاف صاف محسوس کرتے ہیں اس کے کردار کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے ہوئے، اسے ایک نئی راہ سجھاتے ہوئے یا پھر مرد کو زیر کرنے کا ایک نیا گُر بتاتے ہوئے۔ افسانہ ”شب خون“ کے ظالم جاگیر دار باپ شہباز خان کی حویلی میں سسک سسک کر مرنے والی عورتوں میں سے ایک لڑکی رابعہ ہی کو لے لیں، طاہرہ اقبال نے اس کا دل اتنامضبوط بنا دیا کہ وہ حویلی کا بیرونی دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ حالانکہ اونچی دعواروں والی حویلی میں یا تو عورتوںکو پاگل ہوتے دکھایا گیا ہے یا پھر موت کا لقمہ بنتے ہوئے۔
عورت ذات کو کریدتی ان کہانیوں میں افسانہ نگار خاتون کے قلم کے کرشمے نے ” تپسّیا“ کی بوڑھی دلہن زینب کا ایک ایسا کردار بھی تراشا ہے جواپنے اٹھارہ سالہ شوہر سانول کو نکال کر لے جاتی ہے۔ کہانی کار کے قلم کا سارا وزن بوڑھی زینب کے پلڑے میں ہے۔
کہانی ” آپے رانجھا ہوئی“ کی خوبرو زہرہ جب رحیم داد کو اکھاڑے سے نکال کر اپنے وجود کے اندر سما لیتی ہے اس وجود کے اندر کہ جس میں طلب کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے تو اسے پروا نہیں ہوتی کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ ”اسیرِ ذات “ کی نومی کو بھی کسی اور کی پروا نہیں ہے حتیّٰ کہ اپنے شوہر معروف ڈٓکٹر رحمٰن آفریدی کی بھی نہیں تبھی تو وہ اٹھارہ سالہ طالب علم ”علی“ کو اپنی تنہائیوں کا ساتھی بنا لیتی ہے۔ جب رحیم داد قتل ہو گیا یا پھر نومی، نوعمر علی کا ہم شکل بچہ جَن کر اُسے آزاد کر رہی تھی تو میں سوچ رہا تھا کہ آخر افسانہ نگار خاتون نے یہ دونوں کردار اس قدر ظالم کیوں بنائے ہیں؟ ایک عورت عورت کے ایسے ہی کردار بناتی ہے ، مرد کو چیر پھاڑ ڈالنے والے۔ اس کو قدموں کی مٹی چاٹنے پر مجبور کر دینے والے۔
اپنے حسن میں سب کو روند کر گزر جانے والی عورت کے کردار ”مرقدِ شب “ کی ”ہاجو “ بھی کچھ ایسی ہی ہے نذیرے کے بیمار وجود کو روند کر بشیرے کے صحت مند جسم پر نظر رکھنے والی .... افسانہ ”یہ عشق نہیں آساں “ کی عاشی اس سے بھی حوصلے والی اور خود غرض نکلتی ہے اتنے حوصلے والی اور اتنی خود غرض کہ ماں باپ کی اکلوتی اولاد شہزاد کو گھر سے ساتھ بھگا لے جاتی ہے اور یہ بھی نہیں سوچتی کہ یوں نہ صرف وہ خود تباہ ہو گی، ایک اور پورا گھرانہ بھی تباہ ہو جائے گا۔
آپ کہانیاں پڑھتے جاتے ہیں۔ بظاہر مظلوم عورت کو بیان کرتی کہانیاں اور سطروں کے بیچ سے عورت ایک اور روپ لے کر جلوہ گر ہو جاتی ہے۔ وہ روپ جو شاید طاہرہ اقبال نے قصداً نہیں لکھا ہے۔ اس کی عورت ذات سے خود بخود سر زد ہو گیا ہے۔ ہر کہانی کے اندر بیان ہوتی ان کہانیوں میں عورت کہیں کہیں تو بہت ظالم ہو جاتی ہے اتنی ظالم کہ ہمیں یہ مردوں کا معاشرہ دکھتا ہی نہیں ہے۔ ”بھوک بھنور“ کی سیانی کے بارے میں آپ کیا فیصلہ دیں گے جو سوہنے سے کہتی ہے۔
”سوہنے تو بھی چھڑا ہے، میں بھی بڈھے سے کَہ آئی ہوں کہ اب کے تیرے پاس لوٹوں تو موئے کتے کا ماس کھاو¿ں .... چل دونوں مل کر رہیں۔“
اور اسی افسانے کی ایک اور کردار چاچی چُنّو کے بارے میں آپ کا فیصلہ کیا ہے جو سوہنے کے لےے حیا کی سرخی اپنے بوڑھے چہرے پر سجا کر اُس کی اچھی چُنّو بن جاتی ہے۔
مرد گِر جاتا ہے کہ عورت اسے گِرا دیتی ہے۔ اپنے زور سے نہیں، داو¿ سے ، تدبیر سے اور اپنی چالوں سے۔
”خواب کہانی“ کی طلعت کو بظاہر بہت مظلوم دکھایا گیا ہے۔ تین مرلے کے مکان میں رہ کر اُجلے خواب دیکھنے والی معلّمہ، جو اپنے محبوب کے دوستوں سے بال بال بچتی ہے۔ شادی شدہ شہباز کی دوسری بیوی بن جانے سے بچنے کے لےے بھی اسے بھاگنا پڑتا ہے۔ مگر ہمت والی ہے اپنے غرور سمیت بچ نکلتی ہے۔ اور پھر جب اس کی بہن ایک ایسے نوجوان کا رشتہ تجویز کرتی ہے جو بے ساکھی کا سہارا لے کر چلتا ہے تو وہ اسے ناقبول کی سطح پر رکھ کر قبول کرتی ہے۔
مرد میں نقص ہو تو مرد مردود ہو جاتا ہے۔ عورت معذور ہو تو مظلوم ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اسے وہ ملنا چاہےے جس کے وہ خواب دیکھتی ہے۔
طاہرہ اقبال اپنی کہانیوں کی عورتوں کے خوابوں کو اجالتی چلی جاتی ہے۔ اس کے لےے وہ فضا ایسی بناتی ہے کہ پڑھنے والا بھی عورت کے ساتھ ساتھ چلنے لگتا ہے۔
کہانی ” حسن کی دیوی“ کی رانو کو لے لیں کیسے بجلی کے کوندے کی طرح امتیاز پر برستی ہے اور کیسے اس کے بھائی افتخار کی تسکین کا سامان ہوتی ہے وہ حویلی سے باہر اپنے لےے لڑنے والوں کی طرف بھاگتی نہیں حتّٰی کہ ملک صاحب سے اپنے حسن کا خراج پا لیتی ہے .... افسانہ نگار کا قلم اسے مظلوم بنا دیتا ہے اس قدر مظلوم کہ یہی رانو بی بی جی کے اُس کردار پر چھا جاتی ہے جو اپنے بیٹے کے سر پر چپت لگا کر حویلی کے مردوں اپنا شغل جاری رکھے چلے چانے کا حوصلہ دیتی ہے۔
طاہرہ اقبال نے اپنے افسانے کی ایک ایک عورت میں کمال کا گھمنڈ ڈال دیا ہے، وہی گھمنڈ جو عورت میں آ ہی جایا کرتا ہے۔ بظاہر اس کی کہانیاں اِس غرور اور گھمنڈ کو موضوع نہیں بناتیں بس ہوتا یوں ہے کہ یہی موضوع کہانی کے بھید کی طرح اِن کے بیچ سے برآمد ہو جاتا ہے۔ ”خراج“ کی آمنہ علی اپنے جیسا پس منظر رکھنے والے معمولی شکل و صورت کے غفور احمد کا رشتہ اِسی بِرتے پر تو ٹھکرائے چلے جاتی ہے اور قبول کرنے کا سمے تو دیکھےے .... اور کراہت کی انتہا کو تو محسوس کیجےے .... کیا معمولی شکل و صورت کا پیدا ہونا اور عام پس منظر رکھنا غفور احمد کی مرضی سے تھا۔ کیا اس جبر کے سلسلے سے نکل آنا اس کے بس میں تھا۔ شاید نہیں بلکہ یقینا نہیں۔ ہاں محبت کرنا اس کے بس میں تھا لہٰذا اس نے محبت کی مگر ایک خوب صورت لڑکی کے لےے صرف محبت شاید کوئی معنی نہیں ہوتے۔
کہانی ” سڈن ڈیتھ“ کا مرد کردار ڈاکٹر عامر خوب صورت .... مگر اس کا جرم یہ ہے کہ وہ مرد ہے لہٰذا ایک عورت کا دل جیتنے سے قاصر رہتا ہے۔ وہ تب ہی قابلِ قبول ہو سکتا تھا کہ وھیل چیئر کے سہارے حرکت کرنے والی ثمینہ سے وہ وعدہ نبھاتا جو اس نے کبھی کیا ہی نہیں تھا لہٰذا وہ ناہید کو شادی کا پیغام دے کر ذلیل ، کمینہ اور فریبی جیسے القابات کا حق دار ٹھہرتا ہے۔
کہانی ”راکھ ہوتی زندگی کا منظرنامہ “ ہو یا ”پتھر دھڑ ولی شہزادی“ اور ”پٹھانی“ مرد سے برتر عورت کا یہی پُر غرور روپ کہانی کے عین وسط سے چھلک پڑتا ہے۔
طاہرہ اقبال کے تراشے ہوئے عورتوں کے یہ کردار منٹو کا جملہ بار بار میرے ذہن میں پھینکتے رہے ہیں تاہم مجھے خوش گوار حیرت ہوئی جب میں نے اس کے مرد کرداروں کو دیکھا۔ مرد کی نفسیات کا کمال باریک بینی سے مشاہدہ کیا گیا ہے اس کے بدن کھانچے میں بیٹھ کر، اس کے وجود میں اُتر کر اور اس کی رگ رگ میں دوڑ کر۔
مرد کیسے بنتا ہے اور کیسے بگڑتا ہے۔ کیسے ظالم ہو جاتا ہے اور کیوں سہم جاتا ہے صرف ایک کہانی ”شب خون“ پڑھ لیں سارا عقدہ وا ہو جائے گا۔
شہباز خان کو ثریا بیگم جیسی بیوی نہ ملتی تو وہ کیسے ظالم بن سکتا تھا۔ اس کے بیٹے ناصر خان کو نجمہ جیسی عورت کس طرح بدل کر رکھ دیتی ہے۔ ”تپسّیا“ کا سانول ہو یا ”اسیرِ ذات“ کا ڈاکٹر رحمٰن اور علی، ”مرقدِشب“ کا نذیر ہو یا ”آپے رانجھا ہوئی“ کا رحیم داد اور نذیرا یا پھر ”یہ عشق نہیں آساں“ کا شہزاد اور دوسرے افسانوں کے مرد کردار ، عورت کے وجود سے محبت، خوف ، طاقت حتّٰی کہ زندگی اور موت کشید کرتے نظر آتے ہیں .... اور یہ اِن کہانیوں کا سچ ہے۔
ایسا سچ جو بولے اور لکھے جانے والے سچ سے کہیں زیادہ راسخ ہے۔ طاہرہ اقبال کی کہانیوں میں عورت کا کردار مرکزی ہو جاتا ہے۔ تصویرِ کائنات میں محض رنگ بھرنے والا نہیں، پورے سماج کو اپنے محور پر گھمانے والا۔ عورت کے کردار ہوں یا مرد کے، طاہرہ نے انہیں تراشا بہت محبت اور خلوص سے ہے یوں کہ وہ اپنی شباہت مکمل کرتے ہیں، اپنے قدموں پر کھڑے ہوتے ہیں، کہانی کے بہاو¿میں چلتے پھرتے ہیں اور کہانی ختم ہونے کے فوراً بعد تحلیل نہیں ہوتے کچھ نہ کچھ پڑھنے والے کے وجود میں رہ جاتے ہیں۔ یہی طاہرہ اقبال کا کمالِ فن ہے۔
یہ وصف اُسے بہت آگے لے جائے گا۔ یقین کیا جانا چاہےے کہ وہ ایسے کردار تخلیق کرنے میں ضرور کام یاب ہو جائے گی جو لمبی عمر پا لیا کرتے ہیں اور اگلے زمانوں میں جا بستے ہیں۔ بس شرط محنت ، حوصلے اور صبر کی ہے۔

No comments:

Post a Comment