Sunday, March 22, 2009

ماں, میں تھک گیا ہوں

محمد حمید شاہد
”ماں! میں تھک گیا ہوں“
وقار بن الہٰی کی قابل توجہ خود نوشت

معروف افسانہ نگاروقار بن الہٰی کی خود نوشت سوانح عمری ” ماں !میں تھک گیا ہوں“ پر بات کرنے جارہا ہوں تو مشفق خواجہ کی کہی ہوئی بات راستہ روک کر کھڑی ہو گئی ہے ۔ صاحب وہ بھی عجب ڈھب کا آدمی تھا‘ آپ بیتی کی صنف کے بارے میں ماننے کو تیار ہی نہ تھا کہ اس میںسچ لکھا جا سکتا ہے ۔ ”سخن در سخن “ میں توایک جگہ صاف صاف لکھ دیا :
” آپ بیتی ایک عجیب و غریب صنف ادب ہے جس کا موضوع بظاہر تو لکھنے والے کی اپنی ذات ہوتی ہے لیکن بحث عموماً دوسروں کے کردار سے کی جاتی ہے ۔ آپ بیتی کو یادوں اور یادداشتوںکا مجموعہ کہا جاتا ہے لیکن آپ بیتی میں یادوں اور یادداشتوں کی ترمیم شدہ یا حسب منشا صورت ہی نظر آتی ہے ۔ حافظہ اول تو کام نہیں کرتا اور اگر کرتا ہے تو مصنف کی مرضی کے مطابق مواد فراہم کرتا ہے “
ایک مشفق خواجہ ہی نہیں تھے جو یوں اس باب میں بدگمان تھے دوستوئیفسکی نے بھی notes from the undergroundمیں لگ بھگ یہی موقف اختیار کیا ‘اس کا کہنا تھا :
”سچ اور حقیقت پر مشتمل آپ بیتی لکھنا ممکن ہی نہیں ہے ۔ کیوں کہ اپنی بات بڑھا چڑھا کر لکھنا انسانی سرشت کا حصہ ہے“
وہی ”اتنی بھی نہ بڑھا پاکیءداماں کی حکایت“ والی بات۔
کسی بھی فرد کو یہاں یہ سوال پریشان کرسکتا ہے کہ آخروقار جیسے افسانے کی روایت سے جڑ کرلکھنے والے سیدھے ‘سچے اور کھرے آدمی پرکیا افتاد ٹوٹ پڑی کہ اس نے صاف سجھائی دینے والے راستے پر گامزن افسانوں کو لکھنا کافی نہ جانا اور ایسی جھوٹی ‘فریبی اورچتر چالاک صنف ادب سے رسم و راہ کو بڑھالیا جو دعوی تو سچ کا کرتی ہے مگربہ باطن جارج برناڈ شا کے بقول کسی بھی استثنا کے بغیرجھوٹ کا پلندہ ہوجاتی ہے ۔ یادرہے برنارڈ شا نے sixteen self sketches میں آپ بیتیوں کو ایسے جھوٹ کاپلندہ قرار دیا تھا جس میں دروغ گوئی اتفاقی نہیں ہوتی‘ نیت باندھ کرکی جاتی ہے۔
صاحب! وہ سوال جو آپ کو پریشان کر رہا ہے‘ اس کا جواب بھی” اِسی نیت کے باندھنے “میں چھپا ہوا ہے ۔ نیت اور شخصیت کے اپنے آہنگ میں ایک پراسرار سا تعلق ہوتا ہے ۔ اس تعلق کو کھوجے اور سمجھے بغیر معاملے کی اصل کو نہیں پایا جاسکتا۔ میں نے یوں کیا ہے کہ وہ سوال جو اب آپ کو پریشان کر رہا ہے اسے اس سوال سے جوڑ لیاہے جوچندبرس پہلے اس کی افسانہ نگاری پر بات کرتے ہوئے مجھے پریشان کیاکرتاتھا۔ وہی شہرت بٹنے کے زمانے میں وقار کے شہرت نہ سمیٹنے والا سوال ؟۔ تب میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ ہو نہ ہو وہ اپنے عہد سے پَچھڑا ہوا افسانہ نگارہے اور اب میرا کہنا یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے سے جڑا ہو آدمی ہے ۔ یہ دونوں متضاد باتیں نہیں ہیں جب میں نے اپنے عہد کے لوگوں سے پَچھڑنے کی بات کی تھی توکہنا یہ چاہا تھا کہ اس نے نئے زمانے کے وتیرے کو لائق اعتنا نہ جانا تھا اور اب وہ جس زمانے سے جڑا ہوا نظر آتا ہے میری نظر میں یہ اس کا محبوب تہذیبی زمانہ ہے۔ ایسا زمانہ جس کی اپنی مستحکم روایات تھیں اور ایسی روشن اقدار تھیں جن پر معاشرہ قائم تھا یا بہتر طور پر آگے بڑھ سکتا تھا وہ روایات اور وہ اقدار جو اس نئے زمانے کے دھوپ زادوں نے برف کے باٹ جیسی بنادی گئی ہیں ۔
دوسرے معنوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اپنی شخصیت کے آہنگ کے اعتبار سے وقار بن الہٰی کو ایسا آدمی کہا ہی نہیں جا سکتا کہ نیت باندھ کر جھوٹ لکھ پائے۔ میں نے اس کی ساری کہانیاں پڑھ رکھی ہیں اور اسی برتے پر کہہ سکتا ہوں کہ وہ فکشن کے ناسچ کو عام زندگی کی صداقتوں سے بڑا سچ سمجھتا رہا ہے ۔ تاہم وہ اتنا اڑیل سچا اور نیت کا کھرا ہے کہ اپنی زندگی سے منسوب سچ کے قد کو بڑھانے کے لیے فکشن کا سہارا لینا مناسب نہیں جانا لہذا اس نے ” جیسا ہے جہاں ہے“ کی بنیاد پر ‘اسے جوں کا توں‘ بیان کرنے کے لیے آپ بیتی کا سہارا لے لیا ہے۔ اس بات کو صاف صاف سمجھانے کے لیے پونے سات سو صفحات پرپھیلی اپنی زندگی کی کہانی کے عین آغازمیں اس نے خود ہی ایک سوال اٹھایا ہے ‘ یہی کہ:
” میں جب اپنی داستان لکھنے کا ارادہ کر رہا تھا تو یہ سوال بھی میرے ذہن میں کلبلا رہا تھا ۔ لگ بھگ دوسو افسانے لکھنے کے بعد کیا اب بھی ضرورت ہے کہ میں اپنی داستان لکھوں ؟“
اس سوال کے بعد اس نے اردگرد کی باتوں کے ذریعے ہم پر ”فکشن “اور” آپ بیتی “کے فرق کو کچھ یوں واضح کرنے کی کوشش کی کہ فکشن زندگی کا ایساسچ ہے جس میں ”زیب داستاں“ کے لیے جھوٹ ملایا جاسکتا ہے اور جس کے باعث وہ ایک فرد کی کہانی نہیں رہتا ایک نوع کے انسانوں کی علامت بن جاتا ہے ۔ جب کہ” آپ بیتی“ ایک فرد کی زندگی کے خالص تجربوں پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ آخر تک ایک فرد کے تجربوں کی کہانی رہتی ہے ‘ جس طرح اس پر گزری اور جس طرح اس نے دوسروں کے بارے گمان کیا یا فیصلے دیے۔ وقار بن الہٰی نے اپنی زندگی کے خالص سچ کو لکھا ‘ اور جس طرح کا وہ ٹیڑھا آدمی ہے ‘زمانے سے بھڑنے والا تو اس جھوٹ پرور صنف ادب کو بھی انتہائی سفاکی سے سچ دکھانے پر مجبور کیاہے۔ دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ اس نے اپنے دلکش اسلوب سے سچ کو بھی اس چٹخارے کا سا بنا دیا ہے جو کچھ سوانح نگاروںکے ہاں قاری کی توجہ حاصل کرنے کے لیے جنس سے لتھڑا ہوا لیس دار بیانیہ بنااوربعض کے ہاں ایسی عقیدت جو عقیدے کا تنا کاٹ کر رکھ دیتی ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ اپنی ذات کو بڑا بتانے کے لیے دوسروں کی قامت پرتیکھے جملوں کی دُھول اُڑانے والوں یا ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر سنسنی خیز واقعات یکجا کرنے اور اگر ایسے واقعات نہ مل رہے ہوں توخود سے تراش لینے والوں کو آپ بیتی کی صنف بہت محبوب رہی ہے۔ تاہم یہ بھی واقعہ ہے کہ اپنی زندگی کے تجربات آنے والی نسلوں کو بعینہ منتقل کرنے کی للک رکھنے والوں کو اس کے علاوہ کوئی اور صنف ادب سہارا بھی نہیں دیتی۔ صاحب ‘عبدالمجید سالک کی” سرگزشت“عبدالماجددریاآبادی کی ”آپ بیتی“ رشید احمدصدیقی کی ”آشفتہ بنانی میری“ اختر حسین رائے پوری کی ”گرد ِسفر“ میرزا ادیب کی ”مٹی کا دیا“ قدرت اللہ شہاب کی ”شہاب نامہ“ جوش ملیح آبادی کی”یادوں کی بارات“ احسان دانش کی ”جہان دانش“ ممتاز مفتی کی ناول نما” علی پور کا ایلی“ اور” الکھ نگری“ حمید نسیم کی ”ناممکن کی جستجو“ مشتاق یوسفی کی ”زرگزشت“ مختار مسعود کی ”لوح ایام“ انتظار حسین کی ” یادوں کا دھواں“ کشور ناہید کی ”بری عورت کی کتھا“ جاوید شاہین کی ”میرے ماہ و سال“ سے لے کر رشید امجد کی ”تمنا بے تاب“ تک یہ جو آپ بیتیوں کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے تو اس کے دھیان میں آتے ہی سچ جھوٹ کی آنکھ مچولی بھی لطف دے جاتی ہے۔ اسی سلسلے کی کتابوں میں وقار بن الہٰی کی زندگی کی کتاب یوں مختلف نظر آتی ہے کہ اپنی کہانی کے عین آغاز سے اختتام تک ‘ جہاں موقع ملا اس نے اپنی ذات کو بھی خوب خوب طنز کا نشانہ بنایا ہے اور پھر جہاں جہاں اسے خرابی نظر آئی ہے وہیں وہیں اس نے معاشرے کے بخیے بھی ادھیڑ کر رکھ دیے ہیں ۔
وقار بن الہٰی نے ممکنہ حد تک کوشش کی ہے کہ اس کی زندگی کی کہانی یوں چلے جیسے اس پر زندگی بیتتی رہی ہے‘ اپنی زمانی ترتیب کے ساتھ ‘تاہم جہاں کہیں بیانیے نے کسی اکھاڑ پچھاڑ اور رخنے کے بغیراسے اجازت دی اس نے اس ترتیب میں گنجائش پیدا کرکے ماضی کے قصے یا آنے والے وقت سے اپنے حصے کا پیوندیوں لگایا کہ دیکھے جانے والا منظراور زیادہ بامعنی ہوگیا ۔ مثلاً دیکھیے ہجرت کا چشم دید واقعہ بیان کرکے آج تک کے طرزعمل کے تناظر میں اس نے ہمیں کیسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے:
”دس گیارہ بجے ہوں گے گاڑی فیروز پور پہنچ کر رُکی .... دوسروں کی دیکھا دیکھی میں نے بھی اپنی کھڑکی تھوڑی سی اوپر اُٹھائی تو دیکھا ‘ سامنے مرکزی پلیٹ فارم بالکل ویران پڑا ہے.... پھر دوسکھ کرپانیں لہراتے پلیٹ فارم پر نمودار ہوئے‘ انہوں نے ایک مسلم نوجوان لکڑی کو پکڑ رکھا تھا۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے پہلے اُس لڑکی کے کپڑے چاک کیے‘ پھر اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے گئے۔ جب بھی ایک عضو کا ٹتے تو اُسے ہماری گاڑی کی طرف اُچھال دیتےاور دونوں چیخ کر کہتے:”یہ رہا تمہارا پاکستان“ ....بعد کے پچاس برسوں میں ہم جو کچھ کرتے آئے ہیں‘ہر کسی سے میرا یہ پوچھنے کو جی چاہتا ہے....”اُس بچی کے جسم کے ٹکڑے کون جوڑے گا؟“
تلخ حقیقتوں کے بیان میں وہ یک رُخا نہیں رہا اسی دورانیے میں ایک اور منظر جو اس نے لاہور پلیٹ فارم پر دیکھا ‘صورت واقعہ کو ٹھیک ٹھیک سمجھانے کے لیے اُسے بھی بیان کرنا مناسب جانا ہے:
” ....سب میں خون اور لاشوں کے سوا کچھ نہ تھا ‘ جیسے ان گاڑیوں کو واش لائنوں پر خون سے دھویا گیا تھا۔ پلیٹ فارم پر موت کا رقص تو جاری و ساری تھا ہی‘تعفن بھی بے پناہ تھا۔ ان گاڑیوں میں وہ دوتین گاڑیاں بھی شامل تھیں ‘ جو بھارت جانے کے لیے یہاں تک پہنچ پائی تھیں‘ ان کے اندر بھی خون ہی خون تھا“
اچھا ‘ ایک اور واقعہ دیکھیے ‘ بالکل مختلف مزاج کا مگراب ہمارے ہاں رشتوں کی صورت جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس کے باب میں یہ دلچسپ واقعہ کئی سوال اُٹھاتا چلا جاتا ہے۔
” ....میرے دادا جان کو بھی اس دن کا بہت انتظار تھا کہ ان کا پہلا پوتا بیاہا جائے گا۔ صبح سویرے سب سے پہلے انہیں تیار کیا گیا ۔ انہوں نے نیا جوتا اور نیا جوڑا پہنا اور تیار ہو کر باہردھوپ میں چارپائی پر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد دوسرے لوگ تیار ہوئے اور بارات پہنچ گئی جہاں اسے پہنچنا تھا....اور تاریکی اترنے سے تھوڑی دیر پہلے دُلہن کو لیے سب واپس پہنچے تو یہ دیکھ کر جیسے سانس حلق میں ہی اٹک گئے کہ دادا جان تو وہیں بیٹھے تھے جہاں انہیں تیار کرکے صبح بٹھایا گیا تھا.... والد بار بار ماتھا پیٹتے رہے کہ اگر انہیں جاتے ہوئے بھول گئے تھے تو وہاں جاکر بھی ان کی یاد کیوں نہ آئی....ڈرتے ڈرتے دادا کے قریب گئے ....قدرے شرمندہ اور کچھ گھگھیا کر ان سے معافی مانگی گئی تو وہ ہنس دیے ۔ ” مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ تم لوگ میرے ساتھ یہ حرکت کرو گے۔” معافی وعافی کو چھوڑو ایسا ہو ہی جاتا ہے ۔ مبارک ہواور مجھے جلدی سے حقہ دو صبح سے ایک کش بھی اندر نہیں گیا“ انہوں نے کس فراخ دلی سے ساری بات کو پی لیا۔ اب سوچتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے ‘ یہ جوہر اسی نسل کے لوگوں میں تھا‘ میں تو شاید ایسا نہ کر سکوں “
وقار بن الہی کو ان افسانہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے جن کے ہاں دفتری زندگی کو خوبی سے افسانے کا موضوع بنایا گیا ہے ۔ اپنی آپ بیتی میں بھی اس نے وزارتوں اور دفاتر کی تکلیف دہ صورت حال کا نقشہ بہت خوبی سے کھینچا ہے اس باب میں وزارت تعلیم کے ایک سیکشن آفیسر کاصرف ایک واقعہ:
” دفتر میں وہ ہمیشہ نو بجے کے بعد آتے تھے۔ علیک سلیک کے بعد اخبار اٹھاتے اور مطالعے میں غرق ہوجاتے۔ اس دوران کو چٹپٹا ٹکڑا دکھائی دیتا تو مجھے بھی محظوظ دیتے‘ فون آجاتا تو سن لیتےاور ترت جواب دینے کا وعدہ کر لیتے۔ گیارہ بجے کے قریب اٹھتے ‘ اپنی الماری کو چابی لگا کر فائلیں نکالتےاور سب کی سب اپنے دائیں ہاتھ رکھ کر ‘ ہاتھ جھاڑتے اور بیٹھ جاتے۔ ایک ایک فائل اٹھاتے ‘ اسے بائیں طرف رکھتے جاتے ‘ ساتھ ساتھ بڑبڑاتے بھی جاتے” اس پر نوٹ لکھنا ہے.... ٹھیک....یہ جواب آج ضروری ہے....ہوں....اس پر ریمائنڈر دینا ہے‘سسرے بھنگ پی کر سوجاتے ہیں‘جواب ہی نہیں دیتے.... یہ ....ہاں .... یہ جواب نہ بھی گیا تو کیا ہوا‘ کون سی قیامت آجائے گی.... اور اس میں .... پتہ نہیں ڈپٹی کیا چاہتے ہیں؟“ دائیں طرف کا ڈھیربائیں منتقل کرکے پھر ہاتھ جھاڑتے ‘ میری طرف دیکھتے ” ہاں تو میاں ‘ذرا فون کا خیال رکھنا ‘ساڑھے گیارہ بج رہے ہیں ‘میں چائے پی آو¿ں ....“
غرض چائے پی کر پلٹنے ‘ ادھر ادھر فون کرنے ‘لنچ بریک اور نماز کے وقفوں کو انجوائے کرنے اور پھر چھٹی سے ذرا پہلے فائلوں کے ڈھیر کو پھر الماری میں بند کرنے کے اس واقعے میں وقار نے قومی اداروں میں کام چوری اور حرام خوری کی جو تصویر بنائی ہے اس میں سے چیخ کی طرح پھوٹتاہمارے اداروں کے زوال اور انہدام کا نوحہ بھی پوری طرح سنائی دے گیا ہے۔
وقار بن الہی کو کئی ملک دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ اس نے وہاں جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا اسے بھی اپنے قاری کو منتقل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ امریکہ کے مشاہدات کی بابت اس کہنا ہے کہ :
” ....دوسرے ملکوں کی کئی باتوں کی طرح امریکہ بہادر کی بھی کئی باتیں عجیب لگتی ہیں مثلاً کالوں کو صرف دو ہی کام ہیں‘ گانا بجانا یا دھوپ میں بیٹھ کر بھیک مانگنا ۔پڑھ لکھ کر اگر کوئی بھلے مانس اچھی ملازمت پر فائز ہو بھی چکا ہے تو وہ خاموشی کو ہی ترجیح دیتا ہے‘لب نہیں کھولتا.... سفید چمڑی والے دنیا دنیا کے کونے کونے سے اور صدیوں سے وہاں اکٹھے ہوتے رہے ہیں لیکن کام کرتے ہوئے انہیں بھی یوں لگتا ہے جیسے موت کے منہ میں جارہے ہیں۔“
وقار کے قلم اس باب میں خوب جوہر دکھاتا جس میں اس نے اپنی ماں کا ذکرکیا۔یہاں پورے متن کی کیمسٹری تک بدل جاتی ہے۔ اسی باب میں اس نے عورت کے مختلف روپ سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے ۔ عورت کے کچھ روپ وہ اپنی آپ بیتی کے دوسرے حصوں میں بھی دکھا چکا ہے تاہم ماں کے روپ میں اس نے جس عورت کی تصویر بنائی ہے وہ امر ہو گئی ہے۔ عین گڑیوں سے کھیلنے والی عمر میں دلہن بن جانے والی لڑکی‘ جو ایک بیٹے کو جنم دے چکی تو اس کا شوہر فوج میں چلا گیا ‘جسے جاپانیوں نے قید کر لیاتھا۔ بلا کی قناعت پسند‘ صابر شاکر‘ جو ملا کھا لیا ‘ جو میسر آیا پہن لیا۔ بچوں کے انتظار میں بھکی راہ تکنے والی ماں‘ اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کے منہ میں لقمے ڈالنے والی ماں۔ اس عورت کی کہانی جوں جوں آگے بڑھتی جاتی ہے عورت کا قد بلند ہوتا جاتا ہے ۔ عورت واقعی لائق تکریم ہے۔
وقار کی اس کہانی میں ہجرت کا تلخ تجربہ ہے ‘ اپنوں کی لوٹ مار کا المیہ ہے‘ تعلیمی اداروں سے پھوٹنے والے تاریکیاں ہیں اور طاقت کی راہداریوں میں قومی وسائل کو بے دردی سے ضائع کرنے والوں کا قصہ بھی ہے۔ یہ آپ بیتی تو ہے ہی مگر ساتھ ہی ساتھ کئی ملکوں کا سفر نامہ بھی ہے ۔ کئی سفاک حقیقتوں کا فسانہ اورکئی شخصیات کا ایسا دلکش خاکہ ‘ کہ بیانےے میں جمالیاتی قدر کا وصف نمایاں ہوتا چلا گیا ہے ۔ جہاں اس نے تنقید کرنا چاہی وہاںطنز کیا‘ جہاں مشورہ دینا چاہا وہاں اس کے بیان میں اخلاص چھلکنے لگا‘ جہاںانسانی رشتوں کا حوالہ آیا وہاںاس کے قلم نے جذبوں کوایسی جہت دی کہ پڑھنے والے کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور یہی بات نہ صرف اس خوب صورت کتاب کو قابل مطالعہ بنا تی ہے اسے ایک اہم اور قابل توجہ خود نوشت سوانح عمری بھی بنا دیتی ہے۔ ایک ایسی زندگی کی کہانی جو وقار بن الہٰی نے جھیلی مگر جس میں ہماری قومی ‘سیاسی اور تہذیبی زندگی بھی جھلک دے گئی ہے ۔
٭٭٭

7 comments:

  1. bohat khoob
    hameed sahab

    راقم کا خودنوشت سوانح عمریوں کے موضوع پر یہ کام ملاحظہ ہو:


    http://www.wadi-e-urdu.com/urdu-autobiographies-part-1/
    http://www.wadi-e-urdu.com/urdu-autobiographies-part-2/


    خیر اندیش
    راشد اشرف
    کراچی سے

    ReplyDelete
  2. وقار بن الہی صاحب کا خصوصی طور پر شکرگزار ہوں کہ خودنوشت سوانح عمریوں کو مجتمع کرنے کے اپنی نوعیت کے پہلے کام کے دوران جب ان سے ‘ماں میں تھک گیا ہوں‘ کے حصول کی درخؤاست کی تو کمال مہربانی سے انہوں نے مذکورہ کتاب اسلام آباد سے ارسال کی

    راقم ان کتب کی ایک فہرست مرتب کررہا ہے جو تاحال 410 تک جا پہنچی ہے
    عنقریب مندرجہ بالا لنکس پر یہ فہرست شامل کردی جائے گی

    خیر اندیش
    راشد اشرف
    کراچی سے
    www.wadi-e-urdu.com
    جناب ابن صفی پر ایک غیر تجارتی سائٹ

    ReplyDelete
  3. براہ کرم ایک تصحیح فرما لیجیے
    بین السطور انتظار حسین کی خودنوشت کو ‘یادوں کا دھواں‘ لکھا گیا ہے جبکہ درست عنوان ‘چراغوں کا دھواں‘ ہے، حال ہی میں اس کا اضافہ شدہ ایڈیشن شائع ہوا ہے

    زیر نظر مضمون میں درج خودنوشت کے نام تمام کے تمام، اہم ہیں۔ ان میں چند مزید اہم نام شامل کرلیے جائیں تو کوئی مضائقہ نہ ہوگا:

    یادوں کا سفر از اخلاق احمد دہلوی
    جو رہی سو بے خبری رہی از ادا جعفری
    ایک دل ہزار داستان از آغا اشرف
    ہوک از سکے دار
    نوشاد علی لکھنوی کی آپ بیتی از نوشاد (موسیقار اعظم)
    یہ لاہور ہے از ابو الحسن نغمی
    کھوئے ہووں کی جستجو از شہرت بخاری
    ادبیات نشرایت از ناصر قریشی (سن اشاعت: دسمبر 2010)
    میری آخری منزل از جنرل محمد اکبر خان
    خاک کے پردے از آغا سہیل
    امرتسر کی یادیں از اے حمید
    یاد ایام از مولانا عبدالزاق کانپوری
    اس آباد خرابے میں از اختر الایمان (موصوف کی شاعری سے کئی گنا یہ آپ بیتی اچھی ہے)
    ایک ادگوری سرگزشت از انیس ناگی
    جیون دھارا از جیون خان (دو حصوں میں) وغیرہ وغیرہ

    شنید ہے کہ طارق عزیز (نیلام گھر والے) اپنی آپ بیتی لکھ رہے ہیں، نام ہے فٹ پاتھ سے پارلیمنٹ تک)
    اسی طرح حمرہ خلیق (خلیق ابراہم خلیق کی اہلیہ) بھی اپنی خودنوشت تحریر کررہی ہیں
    شیخ منظور الہی کی خودنوشت لاہور کے ایک ادارے سے زیر طبع ہے

    خیر اندیش
    راشد
    zest70pk@gmail.com

    ReplyDelete
  4. کیا کہنے حمید صاحب ‘مٹی آدم کھاتی ہے‘ کے اچھوتے عنوان کے
    ویسے کچھ آدم ایسے ہیں جن کو مٹی کھا ہی جائے تو بہتر!

    آپ نے اپنے اس خوبصورت مضمون میں مشفق خواجہ صاحب کا ذکر خیر کیا، اللہ ان کو جنت نصیب کرے

    احقر کو خواجہ صاحب کی بے مثال لائبریری دیکھنے کا شرف حاصل ہے جہاں مجھے ایک واقف کار لے گئے تھے، عوام الناس کو فی الحال اس تک رسائی حاصل نہیں۔ خودنوشت کی تلاش میں کشاں کشاں ہم وہاں چلے گئے، ایک اور کام بھی تھا اور وہ ابن انشاء کی قبر کی تلاش جو بنا کسی کتبے کے، اسی (مشفق خواجہ کی لائبریری) قرب و جوار میں مل گئی اور پھر ہم نے تصاویر فیس بک پر شامل کیں

    خیر اندیش
    راشد

    ReplyDelete
  5. بیتے لمحوں کی چاپ

    پروفیسر سمیع اللہ قریشی کی آپ بیتی ”بیتے لمحوں کی چاپ“ کے عنوان سے بُک ہوم سے شائع ہوئی ہے۔ کتاب کے صفحات 496 ہیں۔ قیمت 600 روپے ہے۔ انتساب ”فنون لطیفہ کے نام جس کے دم سے دنیا بھر کی جمالیاتی خوبصورتیوں کو دوام حاصل ہے“ ہے۔ دیباچہ ایک غزل ہے جس میں زندگی کے نشیب فراز‘ وقت کی روانی‘ رشتوں کی نشاندہی‘ ماں باپ کی محبت‘ بیوی فرشتہ سرشت‘ دردمند اولاد‘ دوست‘ رقیب‘ بیتے لمحے‘ سب شامل ہیں۔ گویا آپ بیتی ہی اس غزل کے ذریعے بیان کر دی گئی ہو۔ یہ دیباچہ نگاری کا ایک دلچسپ طریقہ ہے جو پروفیسر سمیع اللہ قریشی نے پیش کیا۔
    پروفیسر صاحب ”بیتے لمحوں کی چاپ“ میں جہاں زندگی کو بیان کیا وہاں اس کے بیان کا اسلوب نہایت سادہ سلیس رکھا۔ شاعرانہ انداز بھی ہے مگر ایسا کہ جو عام قاری بھی سمجھ لیتا ہے۔ انگلش جملے بھی ہیں لیکن ضرورت کے مطابق استعمال کئے ہیں۔ اس طرح اشعار کا بھی برمحل استعمال بھی ملتا ہے۔ آپ نے شخصیات کی خاکہ نگاری بھی عمدہ طریقے سے کی ہے۔
    ”جب میں نے اپنی عمر کے 73 سال پورے کئے اس پر مَیں اپنی خود نوشت سوانح کو ختم کرتا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ اللہ نے مجھے محض اپنے فضل سے ایک اچھی‘ باوقار اور مطمئن زندگی گزارنے کی توفیق دی جس میں میرے والدین کی دعا ¶ں کا بے حد دخل رہا ہے۔ میں جو کچھ بھی ہوں اس کے پیچھے میرے یہی پیارے وجود تھے۔“ (ص 480)
    پروفیسر سمیع اللہ قریشی کی اس کتاب میں ایک انکشاف بھی بڑی رواروی اور خفی انداز میں کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ان کے آبائی قصبہ قادیان میں ایک نرس تھی فضل بی بی جو کہ احمدیہ ہسپتال کی ملازمہ تھی اس کے دو بیٹے سُریش اور مکیش کے نام سے بمبئی کی فلمی صنعت میں بڑے نامور ہوئے۔ سریش مدھو بالا کے ساتھ فلموں میں ہیرو آیا اور مکیش مشہور گائیک بنا۔ (صفحہ 21) ۔ اس کے علاوہ بہت سے اور لوگوں کے نام اور شجرہ نسب بھی اس کتاب سے معلوم ہوئے جو کہ پروفیسر صاحب نے بیان کئے ہیں۔ کتاب بہت ہی دلچسپ مشاہدات اور تجربات پر مشتمل ہے جسے پروفیسر صاحب نے سادگی سے بیان کیا ہے۔

    ReplyDelete
  6. نام کتاب : سوانح عمری حمید اختر

    مصنف : احمد سلیم

    قیمت :480 روپے

    حمید اختر ۔۔۔ دو لفظوں پر مشتمل بظاہر ایک سادہ سا نام ۔۔ ان لفظوں میں کوئی گھن گرج ، کوئی گونج نہیں ۔ لیکن ان دو لفظوں سے مل کر ایک شخصیت کی پہچان سامنے آتی ہے ۔اگر آپ حمید کہیں تو ہو سکتا ہے آپ کا دھیان اے حمید کی طر ف چلا جائے ۔اگر صرف اختر کہیں تو شاید آپ کو اختر شیرانی یاد آجائیں ۔ ہوسکتا ہے صرف حمید ِ کوئی سا بھی حمید ہو ، اس طرح اختر کہنے سے آپ کے ذہن میں کوئی شناخت نہ ابھرے لیکن جب یہ دو لفظ مل جاتے ہیں تو ان سے ایک گہری معنویت جنم لیتی ہے ۔حمید اختر کہتے ہی ایک چہر ہ جانا پہچاناچہرہ ۔ ایک وجود زندگی سے بھرا وجود اپنی تجسیم پالیتا ہے ۔پھر اس شناخت ، اس پہچان کا ایک رخ نہیں ، یہ ہمہ پہلو ہے ۔ہمہ پہلو اور ہمہ جہت ۔ افسانہ نگار ، اخبار نویس ، اداکار، فلم ساز ، مدیر ،مترجم ۔ گویا ایک شخصیت میں کئی شخصیتیں پنہاں ہیں ۔ ایک رنگ میں کئی رنگ کھلے ہوئے ہیں ۔

    حمید اختر بر صغیر کی ترقی پسند ادبی اور سیاسی تحریک کا اہم نام ہیں ۔ انھوں نے اپنی زندگی کے بہترین ماہ و سال اس تحریک کی نذر کئے ہیں ۔حمید اختر ترقی پسندوں کے اس قافلے جس میں فیض، سجاد ظہیر ، سبط حسن ، ساحر ، کرشن چندر ،بیدی، منٹو اور احمد راہی شامل تھے، کا اہم حصہ تھے۔ احمد سلیم کے نزدیک امید اور جدوجہد کی اس مشعل جس کا نام حمید اختر ہے ، کو زندہ رکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ان کی زندگی اور فن کے عظیم ورثے کو نئی نسلوں تک پہنچایا جائے اور یہ سوانح عمری انھوں نے اسی مقصد کو پیش نظر رکھ کر مرتب کی ہے ۔

    مصنف کے نزدیک اس کتاب کو حمید اختر کی با ضابطہ سوانح عمری کہنا درست نہیں ہوگا ۔ان کی شخصیت کے بہانے یہ دراصل پاک و ہند کے بارے میں ایک تاریخی دستاویز ہے ۔اس طرح کہ یہ کتاب حمید اختر کے عہد کا ایک مرقع بن گئی ہے ۔ ان کی ہمہ جہت شخصیت بڑھ پھیل کر اپنے پورے عہد کا احاطہ کررہی ہے ۔بالواسطہ اور بلا واسطہ ۔ مثال کے طور پر ان کی شخصیت کا یک حوالہ ان کی کمیونسٹ پارٹی سے وابستگی ہے ۔ چنانچہ ان کی اس سوانح عمری میں قاری کو پاکستان کی کمیونسٹ تحریک کے تشکیلی دور کی جھلکیاں ملتی ہیں ۔اسی طر ح انجمن ترقی پسند مصنفین بمبئی اور بعد ازاں کا پاکستانی دور ان کی ذات میں مجسم ہوگیا ہے ۔چنانچہ کمیونسٹ پارٹی اور انجمن سے وابستہ رہنے والی مختلف شخصیات کے بارے میں معلومات بھی اس کتاب میں مل جاتی ہیں ۔حمید اختر کی اس سوانح عمری میں اان دستاویزات کے حوالے اور اقتباسات بھی نظر گذرتے ہیں جنہیں ان تحریکوں کے ضمن میں آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کرنے کی ضرورت تھی ۔

    قیام پاکستان کے بعد ادب کی ترقی پسند تحریک اور اشتراکی سیاست کو جن مشکلات اور مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑا ان سے واقفیت اور آگاہی کے لئے اس سوانح عمری کا مطالعہ ضروری ہے۔

    ReplyDelete
  7. بعض آپ بیتیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں مصنف ماضی کے واقعات کی باز دریافت کرتا ہے تو حق گوئی اور صداقت بیانی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔انہی میں سے ایک ناشر ملک مقبول احمد کی آپ بیتی ہے جو سفر جاری ہے کے عنوان سے شائع ہوئی۔

    میرے ایک مرحوم دوست کہا کرتے تھے کہ خود نوشت سوانح عمریاں بالعموم نمائش ذات کیلئے لکھی جاتی ہیں اور ان میں زندگی کے حقائق کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کا تحریری سامنا مصنف نہیں کر سکتا۔ تاہم بعض آپ بیتیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن ممیں مصنف ماضی کے واقعات کی باز دریافت کرتا ہے تو حق گوئی اور صداقت بیانی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔

    میں نے ان دنوں دو آپ بیتیاں ایسی پڑھی ہیں جن میں مجھے سچ کہنے اور سچ لکھنے کے عناصر زیادہ نظر آئے۔ ایک کا نام فرد حیات ہے جو حکومت پاکستان کے ایک سابق اعلٰی افسر جناب اے کے خالد کی تصنیف لطیف ہے ۔

    دوسری کتاب ملک کے ایک ناشر ملک مقبول احمد کی آپ بیتی ہے جو سفر جاری ہے کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ حکومت کے سابق افسروں کی متعدد آپ بیتیاں چھپ کر قبول عام حاصل کر چکی ہیں۔

    لیکن کسی کتاب ساز کی یہ آپ بیتی پہلی دفعہ نظر سے گزری تو میں نے اسے بڑی دلچسپی سے پڑھا اور اس کی بنیاد اہمیت یہ نظر آئی کہ اسے ڈاکٹر صفدر محمود، علی سفیان آفاقی، اے حمید، شعیب بن عزیز طارق اسماعیل ساگر، ڈاکٹر طارق عزیز، سید واجد رضوی، ابوالامتیازع س، مسلم ڈاکٹر اللہ بخش ملک اور قمر نقوی نے نہ صرف سراہا ہے بلکہ ملک مقبول احمد کی کتاب دوستی اور ادیب نوازی کی تحسین بھی کی ہے۔

    آخری بات میں نے اس لئے لکھی ہے کہ بعض مصنفین کاروباری معاملات میں اکثر ناشرین کی شکایت کرتے ہیں اس زاویے سے ملک مقبول احمد خوش قسمت ناشر ہیں کہ ان کے کاروباری اخلاق کی سب سے تعریف کی اور نوائے وقت جیسے نظریاتی اخبار نے تو یہ بھی لکھا کہ مقبول اکیڈمی کا قبلہ درست ہے۔

    کتاب سفر جاری ہے کا پہلا حصہ روایتی قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس میں ہمیں ایک عام پاکستانی لڑکے کی زندگی کے حالات اس کا خاندان پس منظر گردوپیش کا ماحول اور زمانے کے نامساعد ردعمال کی تفصیل باریک ترین جزئیات کے ساتھ ملتی ہے۔

    لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جس لڑکے کو اس کا والد پٹواری بنانا چاہتا تھا وہ پہلے دور میں تعلیم کی طرف راغب ہی نہ ہوا اور پھر اپنی معمولی تعلیم کی اساس پر ایک سکول میں ٹیچر بن گیا معلمی کے اس پیشے کے دوران میں ہی اس کے دل میں شوق صحافت جاگا اور اس نے سیالکوٹ سے لاہور منتقل ہوکر رسالہ چودھویں صدی جاری کیا۔

    کامیابی نہ ہوئی تو اس نے کتابوں کی اشاعت کی طرف توجہ دی زندگی کی اس نئی ماہ میں ملک مقبول احمد کی رہنمائی رئیس احمد جعفری اور احسان دانش نے کی کتاب تجارت کے رموزو اسرار اس نے لاہور کی کتاب منڈی سے سیکھے دیانت اور امانت کو اپنا اصول حیات بنایا اور پھر وہ کامیابیاں حاصل کیں جوہر شخص کو نصیب نہیں ہوئیں۔

    ملک صاحب صرف کتابیں چھاپتے ہی نہیں بلکہ کتابیں ان کے اندر بھی بستی ہیں اور وہ پبلشر ہونے کے باوجود کتابوں سے محبت کرتے ہیں…… ان کا اسلوب نہایت دلچسپ ہے۔ ان کے زبان و بیان اور طرز تحریر پر ادبی رنگ غالب ہے جوان کے اعلٰی ادبی ذوق کی عکاسی کرتا ہے۔ اس حوالے سے یہ کتاب سوانح عمریوں میں ایک اضافہ ہے۔

    اس اقتباس کے بعد مزید کچھ کہنے کیلئے کوئی بات رہ نہیں جاتی لیکن میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس کتاب میں ملک مقبول احمد نے متعدد ادبیوں کا تذکرہ جس خلوص اور محبت سے کیا ہے وہ ان کی ادیب دوستی کا ثبوت ہے انہوں نے ہر ادیب کے بارے میں اپنا تاثر چند جملوں میں پیش کیا ہے آپ اسے ملک مقبول احمد کی خاکہ نگاری سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں کتاب کے دوسرے حصے میں ایک باب و کھری ٹائپ کے لوگ کے عنوان سے شامل ہے۔

    اس میں جگ بیتی کا تاثر موجود ہے مقبول اکیڈمی سے رابطہ و تعلق رکھنے والے ادیبوں کے خطوط اس کتاب کا قیمتی تاریخی سرمایہ ہیں جنہیں نوارد میں شمار کیا جائیگا مجھے اس کتاب میں ناشر اور ادیب دوشد نہیں بلکہ مقبول احمد پاکستان کے ادیبوں کی اس محفل میں عجزو انکسار کا مجسمہ نظر آئے ہیں اور وہ ژاں شرک روسو کے الفاظ میں خود کو اسی طرح ظاہر کررہے ہیں جیسے وہ ہیں۔

    تحریر: ڈاکٹر انور سدید
    بشکریہ: نوائے وقت

    ReplyDelete