Sunday, March 22, 2009

عاصم بٹ کی فکشن کی تخلیقی فضا

محمد حمید شاہد
عاصم بٹ کی فکشن کی تخلیقی فضا

محمد عاصم بٹ کی فکشن نگاری اس کی ترجمہ کاری سے پھوٹی مگر جلد ہی اپنی جڑوں کی تلاش کی سمت راغب ہوگئی ۔ پہلے وہ عالمی ادب کے تراجم کی طرف متوجہ ہوا اور اسی کے بیچ کسی مہربان لمحے میں تخلیق کی دیوی اس پر مہربان ہوئی اور اس نے کہانی لکھنا شروع کردی ۔ ہم میں سے بعضے جو لگ بھگ اس کے تراجم کے عادی ہی ہو چکے تھے اس کی کہانیوں میں غیر ملکی اثرات تلاش کرنے میں جت گئے ۔ جہاں کہیں جملہ روایتی دھج سے ہٹ کر لکھا ہوا ملا ‘کہہ دیا اس پر تو ترجمہ کی چھوٹ پڑتی ہے ۔ یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ عاصم بٹ کے لیے آغاز ہی میں مشکلات رکھ دی گئی تھیں۔
یہ مشکل تو اس کے اپنے طرز عمل کی زائیدہ تھی ۔ کچھ اور مشکلات بھی تھیں جو گذشتہ ربع صدی میں سامنے آنے والے افسانہ نگاروں کی پیڑھی سے تعلق کی وجہ سے اسے بہرحال درپیش آنا تھیں۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اس نسل کے تخلیقی تجربے سے دوچار ہونے تک افسانہ نگاری کے نام پر شعبدے دکھانے اور راتوں رات مشہور ہونے کا زمانہ لد چکا تھا ۔ اب وہ گروہ بھی میسر نہ تھے جو گرمئی بازار کا سماں باندھے ہوئے تھے ۔ میری مراد ان گروہوں سے ہے جو تنکا اُتارتے اور چھپر رکھ دیتے تھے ۔میر تقی میر کا شعر یاد آتا ہے
لگا آگ پانی کو دوڑے ہے تو
یہ گرمی تری اِس شرارت کے بعد
جب افسانہ نگاری کے نام پر ساری گرمی فقط شرارت اور شعبدہ گری ہو گئی اور تنقید کا منصب اس سے وہ معنی برآمد کرنا ٹھہرا جو اس میں ہوتے ہی نہیں تھے تو وقت کے پہلو بدلتے ہی یہی اوپر سے کیڑوں کی طرح ڈالے گئے معنی عیب ہو گئے۔ عاصم بٹ اپنے افسانوں کو شروع ہی سے اس عیب سے پاک رکھنا چاہتا تھا ا سے اس قاری کی فکر بھی دامن گیر تھی جو اب تک اکتا کر کنارہ کر گیا تھا۔ اس نے اپنے افسانوں کے اکلوتے مجموعے ”اشتہار آدمی اور دوسری کہانیاں“کے آغاز میں دو لفظوں میں یہی قصہ سنا یا ہے :
” ایک وقت تھا ‘ اردو افسانوں کے مجموعوں کی فروخت ادبی کتب میں سب سے زیادہ تھی ۔ آج صورت حال بہت مختلف ہے افسانوی مجموعہ کا ایک ہزار کا ایڈیشن چیونٹی کی رفتار سے فروخت ہوتا ہے ۔اسے قاری ڈھونڈنے پڑتے ہیں “
اور اس سے اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ :
” جب لکھنے والے پڑھنے والوں کو کھو دیتے ہیں تو اس میں زیادہ قصور لکھنے والوں کا ہو تا ہے “
یہ الگ سوال ہے کہ قاری کا کتنا خیال رکھا جانا چاہیئے ۔ تاہم اب ہم سہولت سے اس تخلیقی فضا سے مانوس ہو سکتے ہیں جو عاصم بٹ کا نکتہ نظر‘ اور طرز احساس اسے مہیا کر رہا تھا ۔ سہولت کے لیے ایک دفعہ پھر دہر لیتے ہیں ۔
۱۔ تراجم کا تجربہ اور دساوری فکشن کی فضا جو بہرحال اس کے اندر حلول کرکے اس کی ذات کا جز ہو چکی تھی۔
۲۔ قاری سے تعلق قائم کرنے کے لیے ایسے اسلوب کی تلاش ‘جس پر گزشتہ عرصے کے اس افسانے کا سایہ نہ ہو جس نے قاری کو بدکا دیا تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ عاصم بٹ کے تخلیقی مزاج کو انہی دو حوالوں سے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے ۔ تاہم ان میں دو باتوں کا مزید اضافہ بھی کر لیجئے۔
۳۔ عاصم بٹ کا تخلیقی سطح پر تفکر سے دوچار ہوتے ہوئے بھی تفکر کے نامیاتی وحدت میں ڈھل جانے والی فکر سے مسلسل اور شعوری گریز۔
۴۔ اندرون لاہور کی شہری فضا جو عاصم بٹ کے افسانوں کا عمومی منظر نامہ متشکل کرتی ہے ۔
چھ افسانوں پر مشتمل ”اشتہار آدمی اور دوسری کہانیاں “ کی اشاعت کے ساتھ ہی جن لوگوں نے عاصم بٹ کے بیانئے کو ایک ترجمہ نگار کا بیانیہ قرار دیا تھا‘لگ بھگ اتنے مزید افسانوں اور ایک عدد ناول ” دائرہ“ کی اشاعت کے بعد ان کے اعتراض کی شدت کم ہو گئی ہے ۔ کتاب کے بعد کے افسانوں اور ناول کو سامنے رکھتے ہوئی میں اس کے بیانیے کی قبولیت کی دو وجوہ تک پہنچا ہوں ۔
۱۔ قاری کی تلاش میں فرنٹ سٹالز پر دھڑا دھڑ بکنے والے ڈائجسٹوں کے بیائیے کی بجائے یک سطحی ادبی بیانئے کی طرف مسلسل سفر۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس سفر میں بہت سے مقامات آتے چلے گئے ہیں جہاں اس کا بیانیہ اس سے باغی ہو کر یک سطحی نہیں رہتا دبیز ہو جاتا ہے اس کی سامنے کی ایک مثال اس کا افسانہ ”چالیس برسوں پر محیط ایک لمحہ ہے “ جس میں اس کے بیانئے سے وہ روحانیت بولنے لگی ہے جس سے اس نے شعوری سطح پر ناطہ توڑا ہوا ہے ۔
۲۔ عاصم بٹ کے قاری کا ایک ترجمہ کار کی تخلیقی طورپر کارآمد زبان کو قبول کر لینا تاہم یہ بہت کم تر سطح پر ہوا ہے جس کی وجہ سے زبان کا یہ نیا ذائقہ پوری طرح عاصم کی شناخت نہ بن پایا ۔ میں نے عاصم بٹ کے افسانوں کی کتاب کی اشاعت پر خیال ظاہر کیا تھا کہ اگر اس نے استقلال کے ساتھ جملوں کی کنسٹرکشن کا یہی قرینہ اپنائے رکھا تو اسی سے اس کی الگ شناخت بن سکتی ہے ۔ مگر ہوا یہ ہے کہ عاصم بٹ نے ترجمہ کار کی زبان کو اپنی خوبی اور شناخت بن جانے سے پہلے ہی اسے خامی مان کر بعد کے افسانوں اور ناول میں جملوں کی ساخت کو بدل کر زبان کو بہت حد تک رواں کر لیا ۔
زبان نہیں اور علامت کا استعمال بھی نہیں۔ خواب‘ موت‘بے چہرگی کے استعارے اس نے برتے ضرور مگر انہیں نمایاں عنصر بننے نہ دیا گویا ایک فکری نظام کی تشکیل یا پہلے سے تشکیل شدہ نظام سے وابستگی بھی نہیں‘ تو پھر وہ کیاغالب عُنصر ہے جس سے عاصم کے ہاں تخلیقی فضا متشکل ہوتی ہے‘ صاحب میرے سامنے یہ سوال تھا۔ اور میں نے اس سوال کا اپنے تئیں جواب تلاش کرنے کی سعی کی تو اس نتیجے پر پہنچا کہ جُز و نگاری ۔ یہی جزو نگاری کہیں تو جزُرسی بھی ہو جاتی ہے اور کہیں کہیں افسانہ نگار کو انہیں اجزاءکا رسیا دکھاتی ہے تاہم مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو مان لینا پڑتا ہے کہ افسانہ ہو یا ناول ‘ یہی اجزاءایک واقعے کو متشکل کرتے ہیں اور پھر واقعات جڑ کر ایک افسانے یا ناول کی صورت بناتے ہیں ۔ گویا آپ کہہ سکتے ہیں کہ مواد کے اعتبار سے اجزا کا بیان‘ کہانی کے اعتبار سے واقعات کا بیان اور بعد ازاں ان کا اتصال بنیادی قرینہ بنتا ہے ۔ زبان واقعے کے اجزاءکے بیان کے لیے پینترے بدلتی رہتی ہے تاہم یہ پینترے جملے کی ساخت کے اندر ہوتے ہیں واقعے کے بیان میں انفرادی جملوں کا یہ عجب اپنی الگ شناخت گم کر دیتا ہے اور اجزا واقعے کی صورت گری کرتے ہوئے زبان کو رواں کر دیتے ہیں ۔
جب کہانی میں واقعہ اہم ہو اور واقعے میں جزو پوری توجہ اور اخلاص کا سزاوار ٹھہرے تو بیانیے کا سہج سہج چلنا یقینی ہو جاتا ہے ۔ اس تخلیقی طرز عمل نے عاصم کی کہانیوں میں بطور خاص لاہور کے اندرون کی فضا کواپنی پوری باریکیوں اور خوب صورتوں کے ساتھ زندہ کر دیا ہے ۔ جزو نگاری کے حوالے سے اندرون شہر ( یا میری مراد اندرون لاہور ہی ہے ) کی فضا کے اور اس سے وابستہ و پیوستہ حسیت کے ساتھ ساتھ جو چیز عاصم بٹ کے افسانوں میں نمایاں ہوتی ہے وہ ہے کرداروں کی تشکیل اور ان کے ساتھ وفاداری۔ کہیں کہیں تو کہانی لکھنے کی للک پر کردار نگاری کاچسکا اس قدر حاوی ہو جاتا کہ افسانے کے اندر کہانی کا بہاﺅ تھم جاتا ہے یا پھر سرے سے معدوم ہو جاتا ہے تاہم ایسے میں بہرحال وہ کردار اپنی پوری قامت کے ساتھ سلامت رہتا ہے ۔ جزیات نگاری کے رسیابہت سے لوگوں کے ہاںیہ رویہ خامی کے طور پر نمایاں ہوا ہے مگر عاصم کے افسانوں اور ناول میں نے اسے خوبی بنتے دیکھا ہے اور وہ یوں کہ کہانی کا دائرہ اس کے ہاں اتنا اہم ہوتا ہی نہیں جتنا کہ کردار کی اپنی قامت ۔ اور اس قامت میں اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ قاری کو اسیر کرلے اور اتنا اسیر کیے رکھے کہ کہانی کے بہاﺅ کی سمت دھیان بھی نہ جائے۔
اب رہ گئی قاری کی بات جس کی تلاش کا ہوکا شروع میںعاصم بٹ کو بہت تھا اور جس کو مدنظر رکھ کر اس نے اپنے آغاز کے افسانوں میں ڈائجسٹوں والی زبان کو اپنایا تھا اور جہاں بھی موقع نکل سکا‘ جنس کے موضوع کو لذت کی سطح پر برتا ‘ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس سطح کا قاری اب عاصم کا مسئلہ نہیں رہا ۔ اسے بھی اب باذوق قاری کی تلاش ہے ۔مجھے یہیں آپ کی توجہ عاصم کے ناول ”دائرہ “ کے اختتامیہ کی طرف چاہیئے جہاں امین گل ‘امین گل نہیں رہتا‘ راشد اورآصف ہو جاتا ہے ‘ وہیں جہاں کچھ سجھائی نہیں دیتا ‘ کچھ سنائی نہیں دیتا ‘خواب اور حقیقت میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ اور عین اسی مقام پر میں آپ کو عاصم کے کتاب کے بعد میں لکھے گئے ایک افسانے کی طرف بھی لے جانا چاہتا ہوں ‘جس کا ذکر میں اوپر بھی کر آیا ہوں ‘ وہی جس میں چالیس سال کی عمر پالینے کے بعد غفلت کا پردہ چاک ہوتا ہے اور اپنے باطن سے مابعدالطبیعیاتی سطح پر مکالمے کی صورت نکلتی ہے ‘ یہ دو مثالیں ایسی ہیں کہ فقط کھوئے ہوئے قاری کی تلاش کا مسئلہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے اور اپنے تخلیقی وجود کے اندر بپا تصادم فائق ہو جاتا ہے ۔ یوں میں عاصم بٹ کے وجود کی گہرائی سے جس تبدیلی کی آہٹ ایک مدت سے محسوس کر رہا تھا وہ اس کے لاکھ پہلو بچالینے کے باوصف ‘اب اس کی تخلیق میں بھی ظاہر ہونے لگی ہے جسے میں بہرحال خوش آئند سمجھتا ہوں۔

No comments:

Post a Comment