Friday, March 6, 2009

سیدھے چلو تو ہیرو ’الٹے چلے تو اچکے

سیدھے چلو تو ہیرو ’الٹے چلے تو اچکے

یکایک سکرین سیاہ ہو گئی....
گھبرا کر ٹیلی فون ملایا.... ”ہیلو! میری سکرین سیاہ ہوگئی ہے....“
”میری بھی“....
”اس کا مطلب ہے سب کی....“
نگہت سلیم کی دعوت پر ہونے والے رابطہ کے اجلاس میں منشایاد کا افسانہ ”کہانی کی رات“ شروع ہوا تو سب جان گئے یہ اس ڈرامے پر لکھا گیا ہے جو ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ میں بار بار کھیلا جاتا رہا ہے.... افسانہ کئی سوالات اٹھاتا ہے....جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ....”آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا....”
’ابو جی ! ڈاﺅن (Down) ہونے میں دیر کتنی لگتی ہے“۔
” ہاں بیٹا تم ٹھیک کہتے ہو دیر تو اپ (Up) ہونے میں لگتی ہے’ ہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ جب بھی ہمیں یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ ہم آگے کی سمت بڑھ رہے ہیں ایک جھٹکا سا ہوتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے سارا منظرنامہ بدل گیا ہے‘ ہم آگے کہاں بڑھ رہے تھے‘ مسلسل کھائی میں گرے جا رہے تھے۔
منشایاد کو مظفر علی سید نے کاریگر افسانہ نگار کہا تھا اس افسانے میں بھی وہ اپنی کاریگری سے ایک ظالم جادو گر کو لے آتے ہیں.... وہی جادو گر جس کی جان طوطے میں ہوتی ہے۔
کہانی کے بچے دادا جان سے سوال کرتے ہیں....”جادو گر اپنی جان طوطے مین کیوں چھوڑ جاتا ہے“ اس سوال کا جواب کہانی میں آگے چل کر ملتا ہے تاہم یہیں وہ ایک دلچسپ نکتہ اٹھاتے ہیں
”دیووں اور جادوگروں کی جانیں دو طرح کی ہوتی ہیں ایک اصلی اور دوسری نقلی‘ نقلی جان وہ ساتھ لئے پھرتے ہیں اور اصلی انہوں نے چھپا رکھی ہوتی ہے۔ کہانی کا دادا جان اسے یوں منطبق کرتا ہے۔
”جیسے زوال آمادہ قوموں کے بعض لیڈر دولت کو اپنی جان کی طرح عزیز رکھتے ہیں اور اسے بیرونی ممالک کے بینکوں میں جمع کر دیتے ہیں....“افسانے میں منشایاد نے اساطیر سے بھی مدد لی ہے.... اور یدھشڑ کے دربار کا منظر قاری پر کھولا ہے....ٹانک کے احوال میں ہم دیکھتے ہیں کہ کلاکاروں کے سولنگ میں دشمن کے آدمی گھس آئے ہیں اصل اور نقل کا فرق مٹ جاتا ہے بس یہی پتہ چلتا ہے کہ لوگ مار رہے ہیں اور لوگ مر رہے ہیں ‘ اندھے یدھشٹر کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ اصل کون ہے اور نقل کون....؟
کہانی کے ایک اور سوال کا سکہ فضا میں اچھلتا ہے اور ہم اندازہ ہی نہیں کر پاتے کہ وہ چاند کے بل گرے گا یا زنجیر کے رخ.... سوال ہے۔
”جب ہر ہیرو کا انجام ولن کا سا ہوتا ہے تو لوگ ہیرو کیوں بنتے ہیں؟ کہانی میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
”نمایاں نظر آنا اور ہیرو بننا آدمی کی سرشت میں ہے اور آدمی کا آدمی پر حکم چلانا دنیا کا سب سے بڑا نشہ ہے۔ قدیم زمانے مین جب حاکم اور بادشاہ محلوں کی بجائے غاروں اور درختوں کی جھنڈ میں رہتے ‘ پیدل چلتے اور لنگوٹی کسا کرتے تھے تب بھی یہ منصب اتنا ہی دل کش تھا جتنا آج ہے۔ قدیم زمانے میں دنیا کے بعض خطوں میں بادشاہ کو دو یا تین سال کے لئے چنا جاتا تھا پھر دستور کے مطابق قتل کر دیا جاتا۔ معزول اور قتل ہونے والا پکار پکار کر کہتا کہ کوئی اس منصب کی خواہش نہ کرے مگر امیدواروں کی تعداد میں کمی نہ ہوتی تھی“۔
منشایاد کی کہانیوں میں گاﺅں کا منظر فراست لے کر آتا ہے اس کہانی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے....گاﺅں کی پنچائیت کا احوال دیکھئے
”ایک بار ایسا ہوا کہ ایک سرپنچ کے اپنے لڑکے نے ساتھیوں کی مدد سے ایک غریب جلاہے کے کنبے کو بے عزت کر ڈالا اسے خوب زدو کوب کیا اور اس کا گھر جلا ڈالا اور ساتھ ہی موقع پر موجود لوگوں کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے اس کے خلاف گواہی دی تو ان کا حشر بھی ایسا ہی ہوگا۔ جلاہا اپنا مقدمہ پنچائیت میں لے گیا‘ نہایت توجہ اور ہمدردی سے اس کی فریاد سنی گئی مگر آخر میں پنچائیت نے معذوری ظاہر کی کہ اس میں شک نہیں کہ گامو جلاہے کا گھر جلایا گیا ہے ‘ مارا پیٹا گیا ہے اور بال بچوں کو رسوا کیا گیا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ کوئی گواہ ہی نہیں ہے جو گواہ ہیں وہ مجرموں کو پہچان نہیں سکے آگ اور فساد کے خوف سے دور کھڑے رہے۔
پنچائیت کی معذوری سے ایک لطیف نکتہ پیدا کرتے ہوئے کہانی جناح ایونیو کی طرف نکل جاتی ہے پھر وہاں سے زیروپوائنٹ پہنچ جاتی ہے۔
ہماری راہ میں بار بار ”صفر“ کا عدد کیوں آتا ہے کہانی یہ سوال شدت سے اٹھانے کے بعد ایک دلچسپ واقعہ پیدا کرتی ہے واقعے میں بچے ویڈیو پر فلم دیکھ رہے ہیں بچے ریموٹ کنٹرول سے ایک منظر کو روک کر ریورس کرتے ہیں ‘ پھر آگے جانے دیتے ہیں اور ریورس کرتے ہیں تو ان کے قہقہے چھوٹ جاتے ہیں.... فلم کا منظر یوں ہے کہ ایک ادمی ایک لڑکی کو ہار پہنا رہا ہے.... صاف پتہ چلتا ہے کہ ہیرو اور ہیروئن کا روایتی منظر ہے.... بچے ریورس کرتے ہیں .... وہی آدمی ‘ لڑکی کے گلے کا ہار اچک کر پیچھے ہٹتا ہے.... بچے قہقہہ لگاتے ہیں اور کہانی کے دادا جان نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ” سیدھے چلو تو ہیرو.... الٹے چلو تو اچکے....“
ہماری سیاسی تاریخ میں کون ہیرو ہے اور کون اچکا‘ اس کا فیصلہ ہو سکے گا بھی یا نہیں کہانی ہمیں یہ نہیں بتاتی‘ سچ تو یہ ہے کہ حالات بھی ہمیں یہ بتانے سے قاصر ہیں.... کہانی میں اور حقیقت میں بھی ایک ہی منظر دہرایا جا رہا ہے کہ سیاہ سکرین پر تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد ایک چہرہ نمودار ہوتا ہے اس بار بھی ہوا ہے.... امید بندھتی رہی ہے اور ٹوٹتی رہی ہے.... اس بار بھی امید بندھی ہے خدا کرے یہ بندھی امید ٹوٹنے کے واسطے نہ ہو۔


No comments:

Post a Comment