Friday, March 6, 2009

سوال یہ ہے کہ.... کیا تم قاتل ہو ناترک کر سکتے ہو؟

سوال یہ ہے کہ.... کیا تم قاتل ہو ناترک کر سکتے ہو؟
محمد حمید شاہد

ٹیلی وژن کی سکرین جگمگا رہی تھی
اور ایک نغمہ گونج رہاتھا۔
”ہم زندہ قوم ہیں.... پائندہ قوم ہیں“
میں خوش ہو رہا تھا اور سردھن رہا تھا
ایک صاحب ‘ جو میرے پہلو میں بیٹھے گوشہ چشم سے سکرین سے امنڈتی روشنیوں کو جھانک رہے تھے یکدم بھڑک کر اٹھے اور لگ بھگ چیخ کر کہا
خاک.... خ....خ....خااااک“
میں چونکا‘ ادھر ادھر بیٹھے لوگوں کی بھی کنوتیاں کھڑی ہو گئیں۔
شعلہ بنا شخص ابھی ابھی تو دم سادھے بیٹھا تھا روز کے معمول کی طرح اسی کونے میں جہاں وہ بیٹھا کرتا تھا چپ چاپ‘ یوں جیسے مردم بیزار ہو اور کبھی نہ بولنے کی قسم اٹھا رکھی ہو۔ کبھی بولنا پڑتا تھا تو بھی یوں کہ بات کی سرگوشی ہی دوسرے کے کان تک پہنچ پاتی تھی....
مگر۔۔۔۔۔
اب جو بھڑک اٹھا تھا تو یوں کہ جلتی پر تیل کا کنستر الٹ گیا تھا وہ کھڑا تھا اس کی بھنچی ہوئی مٹھیاں ہوا میں لہرا رہی تھیں نتھنے پھڑ پھڑا رہے تھے وہ بول رہا تھا اور اس کے منہ سے جھاگ بہے چلی جاتی تھی....
”زندہ قوم....؟“
ایسی ہوتی ہے زندہ قوم؟
چوروں‘ لٹیروں اور ڈاکوﺅں کو کھل کھیلنے کی سند دینے والی زندہ قوم!
غیر ملکی قرضوں کے شکنجے میں جکڑی ہوئی زندہ قوم!
لیڈروں‘ حکمرانوں اور رہنماﺅں کی عیاشیوں کے لئے خام مال بنی ہوئی زندہ قوم!
صوبائی‘ لسانی‘ گروہی‘ نسلی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی ڈسی ہوئی زندہ قوم مہنگائی‘ ناانصافی‘ بدانتظامی ‘ تذلیل اور بے حیائی کے ریلے کی زد میں آئی ہوئی زندہ قوم!
ماضی قریب سے نادم‘ لمحہ حال سے شاکی اور مستقبل سے مایوس زندہ قوم!
غیر جمہوری‘ غیر مہذب اور ناکام ریاست کے منتشر افراد کہلانے والی زندہ قوم!
کشکول اٹھائے آج کی ضرورتوں اور عیاشیوں پرکل کو رہن رکھنے والی زندہ قوم!....
دہ مکے فضا میں برسا برسا کر اور گلا پھلا پھلا کر بولے ہی چلا جا رہا تھا جیسے اس کے اندر ایک ایک جملہ ترتیب سے رکھا تھا یوں‘ کہ اب دوسرے جملے کو راہ دے کر اپنی باری پر برآمد ہو رہا تھا ایسے جیسے جملے نہ ہوں پستول کے میگزین میں ترتیب سے بھری گولیاں ہوں تڑ‘ تاڑٍ تاڑ....
میں مسلسل اس کی شرٹ کو پکڑے کھینچ کر بیٹھنے کو کہہ رہا تھا مگر وہ دھیان ہی نہ دے رہا تھا‘ میں اٹھا دونوں ہاتھ اس کے کاندھے پر رکھ کر سارے بدن کا بوجھ اس پر ڈال دیا اور اتنی ہی آواز سے چیخ کر کہا جتنی میں وہ چیخ رہا تھا۔
”پروپیگنڈہ ہے یہ مغرب کا پروپیگنڈہ“
اس نے میری طرف پہلی بار غور سے دیکھا‘ اور دھڑام سے اپنی نشست پر یوں بیٹھا کہ کرسی چر چرانے لگی‘ اس کے دونوں گھٹنے سامنے پڑی میز سے ٹکرائے اور چائے کی پیالیاں اچھل کر لڑھکنے لگیں.... اس کی آواز قدرے دھیمی پڑ گئی.... میرے کہے کو دہرانے لگا....
”پروپیگنڈہ.... مغرب کا پروپیگنڈہ“
مغرب کا بھی اور ہمارے دشمنوں کا بھی”.... میں نے اضافہ کیا“ ورنہ جھوٹ ہے سب اس نے اپنی آنکھیں پہلو بدل کر میرے چہرے پر گاڑ دیں اور مجھے یوں تکنے لگا جیسے اس کی تیز نظر میرے بھیجے کو اڑا کر پار ہو جائے گی۔
میں لڑکھڑا گیا‘ ”شاید سارا جھوٹ نہ ہو.... مگرسارا سچ بھی تو نہیں ہے.... عالمی میڈیا تو ان کا آلہ کارہے جن کے مکروہ عزائم کی تکمیل میں ہماری سلامتی اور ہمارا وجود آڑے آرہا ہے“.... لڑکھڑاتی زبان سنبھل گئی.... نغمے کے بول آخری بار دہرائے جا رہے تھے جو ہماری چیخ چیخ میں دب رہے تھے۔
”ہم زندہ قوم ہیں.... پائندہ قوم ہیں....“
دیکھو قوم اور بھیڑ میں بڑا فرق ہوتا ہے“....اس کی شہادت کی انگلی میرے کندھے کو کاٹ رہی تھی۔
”قوم منظم ہوتی ہے.... ایک “ اس کی انگلی اب اوپر فلک کو اٹھ رہی تھی اور.... اور.... بات آگے بڑھانے سے پہلے ہی اس کی ساری انگلیاں پھیل کر ہوا میں بھٹکنے لگیں....
” اور.... بھیڑ میں جس کا منہ جدھر ہوتا ہے وہ ادھر ہی کو بھاگے چلا جاتا ہے دوسروں کو روندتا ہوا‘ کچلتا ہوا‘ لتاڑتا ہوا....“
اب وہ لفظ چبا چبا کر نکال رہا تھا.... اس نے ایک سوال اچانک میری سمت اچھالا....
”بتاﺅ کیا زندہ قومیں برضارغبت مسلسل زلت کی کھائی میں گرے چلی جاتی ہیں؟.... آہ“.... لمبا سانس نکال کر اس نے میرے جواب کا انتظار نہ کیا اور خود ہی خود سے کہنے لگا
”حیف کہ ہم من حیث القوم تحت الثری میں گرنے کو تیار بیٹھے ہیں اور حیرت ہے نیچے گرے جاتے ہیں‘ نیچے اور نیچے.... اور رقص بھی کئے جاتے ہیں‘ گائے جاتے ہیں۔
ٹیلی ویژن پر پروگرام بدل چکا تھا ایک مقبول نغمہ ابرارالحق تھرک تھرک کر گا رہا تھا۔
”کنے کنے جاناں بلو دے گھر....
لائن بناﺅ نالے ٹکٹ کٹاﺅ....“
وہ بڑ بڑایا.... لائن بنانے کی فرصت کہاں!
میں چپ رہا.... مناسب یہی تھا کہ چپ ہی رہوں .... ممکن تھا یوں وہ خود ہی بک جھک کر خاموش ہو جاتا مگر اس نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف کھڑی کی اور پھر آہستہ آہستہ یوں میری چھاتی کی طرف موڑنے لگا جیسے نشانہ باندھ رہا ہو.... یکدم اس کے ہونٹ تھرائے اور باہم یوں ٹکرائے کہ پورے ہال میں ان کا زپاٹا گونج گیا‘ پھر وہ زچ بچ بولے چلا گیا
بلو کا گھر.... نیچے بہت نیچے.... لائن بناﺅ.... نہیں بھاگو....روندو.... کچلو....‘
اس کے گلے میں خراش ہونے لگی لفظ پھنس پھنس کر آمد ہونے لگے حتی کہ اس کا پورا بدن بارش اور طوفان کی زد میں آئی کشتی کے بادبان کی طرح لرزنے لگا‘ آنکھیں بھیگنے لگیں اور مجھے یوں لگنے لگا کہ جو وہ کہہ رہا تھا یا پھر نہیں کہہ پا رہا تھا اس کا لفظ لفظ میرے دل کے بیچ گر رہا تھا....
اس واقعے کو کئی دن بیت چکے ہیں.... مگر وہ شخص جو بظاہر معزز تھا اور اندر سے گولی کی طرح بارود سے بھرا ہوا تھا اب بھی میری یادداشت کے گوشے سے عین اس وقت اٹھ کر منہ سے جھاگ پھین جھاڑنے لگتا ہے جب بھی میں اکیلا ہوتا ہوں....
میں اسے انتہائی باحوصلہ‘ مہذب اور دانشمند کے طورپر جانتا رہا ہوں‘ سفید پوش ہے اپنے وسائل کے بیچ گزر بسر کرنے والا‘ ذمہ داری سے اپنے فرائض ادا کرنے والا اور دوسروں سے بھی یہی توقع رکھنے والا....
میں جانتا ہوں کہ اس کی بچیاں اور بچے ابھی سکولوں میں ہیں۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے تعلیمی اخراجات کا بوجھ ابھی اس پر نہیں پڑا.... تاہم بچوں کی یونیفارم کتابیں ‘ کاپیاں‘ بسوں کے کرائے‘ فیس اور دوسرے لوازمات کے لئے اسے اپنی تنخواہ سے اچھی خاصی رقم الگ کر دینی ہوتی ہے اس کے پاس موٹر سائیکل ہے گاڑی نہیں لہذا پیٹرول کا خرچ کم ہی ہے تاہم روز روز بڑھتی پیٹرول کی قیمت پھر بھی اس کے بجٹ کو متاثر ضرور کرتی ہے۔ وہ اکثر بجلی ‘ گیس‘ ٹیلی فون وغیرہ کے بلوں کی شکایت کرتا رہتا ہے مہنگائی سے شکوہ بھی اس کے لبوں پر رہتا ہے بیوی کی بیماری اور اس کے لئے دواﺅں کا حصول بھی اس کے اعصاب پر سوار رہتا ہے۔ انکم ٹیکس اور دوسرے ایڈوانسز کی کٹوتیاں بھی اسے کھٹکتی ہیں۔ وہ اکثر چیلنج کیا کرتا ہے کہ اس کے کنبے جیسے مختصر خاندان والے سرکاری ملازم کی گزر بسر کا بجٹ موجودہ تنخواہ سے کوئی بھی ماہر اقتصادیات بنا دے تو وہ ملازمت ہی سے مستعفی ہو جائے گا ۔یہ سب کچھ وہ یوں بتا تا رہا ہے جیسے اسے بس معمولی سے رنجش ہو کبھی ہنستے ہوئے کبھی یونہی کندھے اچکا کر مگر یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اس کا دماغ پوری طرح الٹ گیا تھا۔
میں نے اسے دیکھا تھا اور حیران ہوا تھا
حیران ہوا تھا اور اسے دیکھتا چلا گیا تھا۔
بہت پہلے ایک جملہ پڑھا تھا ”لفظ بھرے ہوئے پستول ہوتے ہیں“
اس جملے کے اصل معنی سمجھ نہ آئے تھے۔
مگر اب جب کہ یہ شخص مجھے اکیلا پا کر میری یادداشت کے پہلو سے اٹھ کر لفظوں کی بوچھاڑ کرنے لگتا ہے تو مجھے بہت پہلے پڑھا ہوا جملہ پوری طرح سمجھ آ جاتا ہے اب تو وہ خود بھی مجھے گولی کی طرح لگنے لگا ہے تانبے کا اور بارود سے بھرا ہوا۔
ایسی گولی‘ جو کسی بھی پستول کی میگزین میں ڈالی جا سکتی ہے۔
جہاں منصوبہ سازوں کی منصوبہ بندی کا یہ عالم ہو کہ وہ خشک سالی کو علی الاعلان سال بہ سال قدم اٹھا کر آتے دیکھیں مگر آنکھیں بند کر لیں ، جہاں ملک کے ایک حصے میں تو خشک سالی کا عفریت روز انسانوں اور مویشیوں کے تر لقمے نگلے اور دوسری طرف منرل واٹر کے بغیر پانی کا تصور ہی محال ہو.... جہاں ایک طرف تعلیم کو سارے وسائل مہیا ہوں حتی کہ تعلیم کے بعد حسب منشا مناصب بھی اور دوسری طرف عین سوانیزے پر سورج ہو تو بھی درختوں کی چھدری چھاﺅں تلے ننگی زمین کے سوا ایک دونی‘ دونی ‘ دو‘ دونی چار کے لئے کوئی اور جگہ میسر نہ ہو.... جہاں غریب اتنی قدرت نہ رکھتا ہو کہ انصاف پانے کورٹ کے دروازے تک پہنچ سکے‘ ظلم اس لئے برداشت کرتا جائے کہ وکیل کی فیس ‘ کوٹ فیس کلرکانہ‘ فوٹوسٹیٹ‘ آمدورفت کا کرایہ اور دوسرے اخراجات کہاں سے لائے گا.... تاریخیںبھگتے کہ محنت کر کے پیٹ کا ایندھن کا بندوبست کرے گا اور یہ سب کچھ ہمت کر کے کر بھی لے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ انصاف ملنے تک اس کی آنکھیں پتھرا نہیں جائیں گیں اور دوسری طرف یہ عالم ہو کہ اہل زر کے پاس چمک ہی چمک ہو.... آنکھوں کو خیرہ کرنے والی چمک‘ سارے ضابطوں اور قوانین کو انصاف کی عدالت میں پہنچنے سے پہلے ہی خزاں زدہ سوکھے پتوں کی طرح چرمراکر رکھ دینے والی چمک.... ایسے معاشرے میں بے وسیلہ لوگوں کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہو جایا کرتی ہے۔
نوجوان تعلیم پاکر بھی بے روز گار رہتے ہیں....۔
اپنوں کے طعنے سنتے ہیں ۔ وہ اپنی جان کے دشمن ہو جاتے ہیں‘ جو برداشت نہ کر سکیں باغی ہو جاتے ہیں اور اندھیرے میں اسی ظالم سماج سے اپنا حصہ بزور حاصل کرنا شروع کر دیتے ہیں....
جس قوم کا پیدا ہونے والا ہر بچہ مقروض ہو
آگے سمندر ہو اور پیچھے دیوار
ایسی قوم کے ہر بے وسیلہ شخص کے مقدر میں گولی بننا لکھ دیا جاتا ہے مجھے خدشہ ہے وہ تانبے کے بدن والا ایک شخص نہیں ہے ادھر ادھر اور بھی ہیں جن میں بارود بھرا ہو اہے۔
گولی جیسے لوگ....
جو کسی بھی پستول کی میگزین میں بھرے جا سکتے ہیں....
نسلی تفادت.... علاقائی تعصب.... لسانی جکڑ بندی.... صوبہ پرستی.... فرقہ واریت.... غرض کسی بھی پستول کی میگزین میں.... اور پھر جیسے جو چاہیے جب چاہے تاڑ‘ تڑ‘ تڑ‘ تاڑ چلالے میں بے وسیلہ لوگوں کے چہروں کی سمت دیکھتا ہوں تو مجھے جان اگارڈ(John Agard) کی وہ نظم یاد آ جاتی ہے جو عباس رضوی کی وساطت سے مجھ تک پہنچی تھی.... نظم کا عنوان ہے ” بندوق کی گولی کی جانب سے ایک سوال.... نظم پڑھیں اور اس کی آخری سطر کو ہم خود سے کیا گیا ایک سوال جانیں۔
” میں بندوق کی گولی نہیں رہتا چاہتا
میں بہت عرصے سے بندوق کی گولی ہوں
میں ایک معصوم سکہ بننا چاہتا ہوں
جو ایک بچے کے ہاتھ میں ہو
اور جسے ایک ببل گم مشین میں ڈال دیا جائے
.... میں بندوق کی گولی رہنا نہیں چاہتا
میں بہت عرصے سے بندوق کی گولی ہوں
میں ایک نیک شگون والا بیج بننا چاہتا ہوں
جو کسی کی جیب میں بےکار پڑا رہے
یا کوئی معمولی سا پتھر
جسے کسی کان کے بندے میں لگنا ہو
یا بہت سارے پتھروں کے درمیان
بے شناخت پڑا رہے
.... میں بندوق کی گولی رہنا نہیں چاہتا
میں بہت زیادہ عرصے سے بندوق کی گولی ہوں
سوال یہ ہے کہ
کیا تم قاتل ہو ناترک کرسکتے ہو؟....


No comments:

Post a Comment