Saturday, March 7, 2009

ایک کتاب جو قاری کو تحلیل کر دیتی ہے

ایک کتاب جو قاری کو تحلیل کر دیتی ہے
محمد حمید شاہد
آصف فرخی نے خود کشی کا جنگل کے عنوان سے لکھا ہے کہ ”کتابیں بہت زیادہ مانوس ہو جائیں تو یکسانیت کی بو آنے لگتی ہے ہم انہیں ایک ہی طرح سے پڑھنے کے خوگر ہو جاتے ہیں اور پھر جب ان کا سامنا ہو تو کنی کاٹنے لگتے ہیں ۔ اکتاہٹ یا بےزاری کا پیش خیمہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔
بہت ساری کتابیں جب میرے اندر اکتاہٹ اتار چکیں اور میں واقعی کتابوں سے (مجھے کہہ لینے دیجئے کہ ایک جیسی کتابوں )سے کنی کاٹ کر آگے بڑھنے لگا تو ایکاایکی ایک ایسی کتاب نے مجھے تھام لیا جو قاری پر فنا کی اصل آشکار کرتی ہے۔
شاعری کی ایک کتاب‘ جو فقط شاعری نہیں ہے۔
اکتائے ہوئے دلوں کو اپنے اندر جذب کر لینے والی کتاب اور پھر تحلیل کر ڈالنے والی کتاب۔
اس کتاب کا چرچا میں نے تب بھی سنا تھا جب یہ پہلی بار ۶۹ءمیں طبع ہوئی تھی مگر میں اسے حاصل نہ کر پایا تھا اب یہ ایک مرتبہ پھر چھپی ہے اور میرے سامنے یوں آئی ہے کہ میں اسے کئی مرتبہ پڑھ چکا ہوں۔
”انخلاع“ اور ”انقطاع“ والے مظفر اقبال نے اردو کے پیرھن میں اسے ڈھال کر اپنے لئے ہمارے دل میں اور اردو ادب میں ایک خاص گوشہ محفوظ کرا لیا ہے۔ لیجئے کتاب کی طرف پلٹتے ہیں۔ ایک ایسی کتاب جسے آپ کہیں سے کھول کر پڑھ سکتے ہیں اور اپنی روح میں طلاطم برپا کر سکتے ہیں کہ یہ جس کا کلام ہے اس نے اپنے بارے میں بجا طور پر کہا ہے کہ۔
”حق نے میرے دل سے میرے ساتھ کلام کیا
میرا علم میری زبان پر تھا
بعد کے بعد وہ قریب آیا
اللہ نے مجھے چنا اور ممتاز کیا“
کتاب کے متن میں اترنے سے پہلے مجھے مصنف کی شخصیت کے سحر نے آلیا۔ ابتدائیہ جو سید نعمان الحق نے لکھا اور مقدمہ جو کتاب کے مترجم مظفراقبال کے قلم کا اعجاز ہے‘ میں صاحب دیوان کا بھر پور سراپا بیان کیا گیا ہے میں آگے بڑھنے سے پہلے اس البم سے چند تصویریں آپ کی نذر کرتا ہوں۔
پہلی تصویر....
ایک بیس سالہ نوجوان جس کا باپ دریائے فرات کے ساحلی علاقوں میں اون کی بنائی کا کام کرتا تھا‘ بصرہ سے ہوتا ہوا بغداد پہنچا حافظ قرآن سہیل القستری کی کارگہ تصوف کا یہ مزدور جنید بغدادی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وجود عدم ‘ فنا‘ بقا تو حید‘ عشق رسالت وحی حضور و نور سیر شاری و دیوانگی وارفتگی و مستی حجاب و انکشاف فصل وصل تشبہیہ اور تنزیبہ جیسے سارے معاملات سارے سربستہ راز اس نوجوان کو دل گیرکئے ہوئے تھے اور امید تھی کہ جنید بغدادی کچھ گرہ کشائی کریں گے لہذا چند سوال ان کے آگے رکھے اور بہت ادب سے جواب طلب ہوئے۔ بغداد کے صوفی نے کوئی جواب نہ دیا صرف ایک مختصر سی بات کہی‘ مگر ایسی کہ حلقے میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کے چہروں سے رنگ اڑ گیا۔ فرمایا۔
”وہ دن جلد آنے والا ہے‘ جب تم لکڑی کے ایک ٹکڑے کو لہو کے سرخ رنگ سے بھر دوگے“
دوسری تصویر....
ستاون سالہ سفید ریش شخص کو ،کہ جسے ایک عورت کی مخبری پر گرفتار کیا گیا تھا‘ بغداد کے سارے شہر سے پولیس کی نگرانی میں یوں گزارا گیا کہ پکارنے والا پکار پکار کر لوگوں کو اس کے خلاف بھڑکائے جاتا تھا ابن عیسی کے پاس وزارت کا منصب تھا وہ جانتا تھا کہ سب الزامات باطل ہیں لیکن اس کے سامنے ایک ایسا قیدی تھا جس کے خلاف حکومت کی مشینری حرکت میں آچکی تھی اور اب قانون کے تقاضوں کو پورا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
تیسری تصویر
مقدمے کی کارروائی چالیس روز تک جاری رہی جوں جوں کارروائی طویل ہو رہی تھی شہر میں فساد کا خطرہ بڑھ رہا تھا لہذا اس کے آخری اجلاس کی صدارت ابن عیسی نے خود کی سماعت کے دوران ملزم پر خوب طنز کئے اس کے چہرے پر چانٹے مارے داڑھی کٹوادی اور اپنی تلوار کے دستے کی ضبریں لگائیں۔
چوتھی تصویر
دو دن بعد شہر کے مشرقی حصے میں پولیس چوکی کے سامنے اسے شکنجے میں کس کر لٹکایا گیا اگلے روز یہی عمل مغربی کنارے پر دہرایا گیا خلقت نے دیکھا کہ جس بزرگ کو شکنجے میں جکڑا گیا تھا وہ کمال اطمینان سے کشف اور یقین کی نعمتوں کی فرحت میں غرق خدائے واحدلاشریک کی توحید میں گم تھا۔ اس نے اس عالم میں بھی نہ تو نمازوں سے غفلت برتی اور نہ ہی اس نے کسی پریشانی کا اظہار کیا کہ یہ وہ شخص تھا جو اپنے قاتلوں کو پہلے ہی اپنا خون معاف کر چکا تھا۔
مجھے ہلاک کر دو‘ میرے باعتبار ساتھیو
کہ میرا قتل ہی میری زندگی ہے
میری موت میری حیات میں ہے
اور میری حیات میری موت میں ہے
میرے نزدیک اپنے وجود کا مٹا دینا
گراں قدر کاموں میں اونچا ہے
اور اپنی صفت کے ساتھ بقا
قبیح ترین گناہ....“
چار دن کے بعد اسے سولی سے اتارا گیا ابھی وصال حقیقی کا وقت نہیں آیا تھا دریا کے مشرقی حصے میں واقع وزیر کے محل کی جیل میں پہنچا دیا گیا یہاں اس نے آٹھ سال سات ماہ اور آٹھ دن حراست میں گزارے.... اور نویں دن اسے اس جہان فانی سے کوچ کر جانا تھا۔
پانچویں تصویر....
وہ تیزی سے اپنی زندگی کے اس عظیم لمحے کی طرف جا رہا تھا جو اسے خالق حقیقی کے قرب سے ہمکنار کرنے والا تھا اس سے ملا قاتیوں کی سہولت چھین لی گئی واجب القتل قرار دیئے جانے کا فتوی لفافے میں بند ہو کر حاجب نصر کے ذریعے خلیفہ کو توثیق کے لئے ارسال ہو چکا تھا اور پھر جب المقتدر نے سزائے موت کی توثیق کر دی تو وہ لمحہ قریب تر آ گیا جس امر ہو جاناتھا۔
چھٹی تصویر
جب وہ اسے مصلوب کرنے کے لئے لے کر آئے تو اس شخص نے سولی اور کھیل(مسلم) دیکھے تو اتنا ہنسا کر اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا پھر جائے نماز طلب کی دو رکعت نماز ادا کی اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لیے۔
”میں ملتجی ہوں کے تو مجھے توفیق دے کہ میں تیرا شکر ادا کر سکوں اس نعمت پر جو تونے مجھے دی ہر غیر کی نظر سے چھپا کر تونے اپنے چہرے کے جو لشکارے مجھ پر ظاہرکئے اور دوسروں پر حرام اور اس نظر کے لئے جو تونے مجھے اپنے بھیدوں پر ڈالنے دی۔ دیکھ یہ لوگ تیسرے عبادت گزار لوگ مجھے قتل کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ تیرے تعصب میں اور تیرے قرب کے لئے۔ انہیں معاف کر دے کہ تونے اگر ان پر وہ کشف کیا ہوتا جو مجھ پر کیا ہے تو ہ یہ نہ کرتے جو کر رہے ہیں اور اگر تونے مجھ سے مخفی رکھا ہوتا جو تونے ان سے مخفی رکھا ہے تو میں جس ابتلا سے گزر رہا ہوں اسے برداشت نہ کر پاتا۔ ساری تعریف تیرے ہی لئے ہے جو کچھ بھی تو کرے۔ تعریف تیرے ہی لئے ہے جو کچھ بھی تیرا حکم ہو“۔
اب مجھے بتا ہی دینا چاہئے کہ یہ منصور حلاج کی زندگی کی تصویریں ہیں۔ ابوالمغیث الحسین بن منصور الحلاج کی زندگی کی تصویریں‘ جو میں نے اس دیوان سے آپ کے لئے منتخب کی ہیں جسے مظفر اقبال نے اردو میں ڈھالا ہے۔ منصور حلاج شہر بیضا (فارس) میں ۸۵۸ میں پیدا ہوئے عمر کا ابتدائی حصہ عراق کے شہر واسط میں گزارا سولہ برس کی تھے کہ بصرہ میں عمرومکی کی صحبت نصیب ہوئی بعد ازاں بغداد گئے اور جنید بغدادی کے حلقہ تلمذ میں شریک ہو گئے۔ رواداری اور مصلحت کے بالکل قائل نہ تھے جو درست سمجھتے کہہ گزرتے آپ کے نظریہ حصول پر شدید اعتراضات ہوئے تاہم اس کی قابل قبول تعریف کرنے والے بھی بہ کثرت موجود تھے۔ انالحق کہنے کے جرم میں کفر کا فتوی لگا سزائے موت پائی فیصلے میںلکھا گیا تھا کہ اسے کوڑے مارے جائیں‘ پھر ہاتھ پاﺅں کاٹ دیئے جائیں اور بعد میں سرتن سے جدا کر کے اعضا کو آگ میں جھلسا کر دجلہ کے پانیوں میں بہا دیا جائے۔
حسین بن منصور حلاج کو کافر کہنے والے بھی بہت ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انہیں سزا قرآن و سنت کی روشنی میں درست دی گئی جبکہ دوسرا گرہ انہیں ولی اور برگزیدہ شخصیت قرار دیتا ہے اور اصرار کرتا ہے کہ لوگ ان کے اقوال کے ظاہری معانی سے مغالطہ میں پڑ گئے ہیں اگر وہ اصل معانی پر غور کرتے تو کبھی کافر نہ کہتے۔جلال الدین رومی نے علانیہ ان کی تحسین کی تھی۔ فریدالدین عطار نے شہید حق کا خطاب دیا۔ کتاب کے دیباچہ نگار نے منصور حلاج کے اثر سے بغداد میں سر اٹھانے والی اخلاقی اور سیاسی اصلاح کی تحریکوں کا تذکرہ کر کے ان سازشوں سے بھی نقاب اٹھایا ہے جس کی بھینٹ وہ چڑھ گئے تھے مگر جس کتاب سے میں آپ کو متعارف کرا رہا ہوں اس کااصل متن تو وہ قصائد،قطعات اور نظمیں ہیں جن میں ایک ایسا صوفی کلام کرتا ہے جسے فنا کے مقام بقا پر مقیم ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔بجا طور پر کہا گیا ہے کہ اس کلام میں جہاں ایک انسان کے عزم ہمت اور عشق صادق کا نور موجود ہے وہیں اس پکار کی عمیق گہرائیوں میں ایک ایسا سناٹا بھی ہے جو روح کو تھرتھرا دیتا ہے۔
”سکوت‘ پھر خاموشی‘ پھر فتور کلام
اور علم‘ پھر وجد‘ پھر فنا مٹی‘ پھر نار‘ پھر نور ٹھنڈک‘ پھر سایہ‘ پھر دھوپ‘ دشوار راستہ‘ پھر آسان‘ پھر بیاباں دریا‘ پھر سمندر‘ پھر خشکی سکر‘ پھر صحو‘ پھر شق‘ قرب‘ پھر وصل‘ پھر انس قبض‘ پھر بسط‘ پھرمحویت فراق‘ پھر جمع‘ پھر طمس (تصعید) ربودگی‘ پھر واپسی‘ پھر جذب اور وصف‘ پھر کشف‘ پھر خفاعمارات.... جو صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جن کے لئے دنیا ایک فلس سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی۔
(روز نامہ پاکستان اسلام آباد پیر 26فروری 2001)

No comments:

Post a Comment