Sunday, March 22, 2009

جدید سندھی ادب-میلانات‘ رجحانات‘ امکانات

محمد حمید شاہد
جدید سندھی ادب:ایک تاثر
(میلانات‘ رجحانات‘ امکانات)

رگ وید میں لکھا ہے
ََاے سندھو !تیری موجوں کی گھن گرج زمین سے آسمان تک پہنچتی ہے۔
تیری بپھری ہوئی لہروں میں زندگی کی برق رفتار روانی اور بہاﺅ ہے اور جب گرجتے بادل تجھ پر برستے ہیں تو تُو کسی حاملہ عورت کی طرح اٹھلا اٹھلا کر چلتا ہے۔
اے سندھو !دوسری ندیاں دودھ دیتی ہوئی گایوں کی مانند ہیں جو اپنے بچھڑوں کو دودھ پلانے کے لیے بے چینی کے ساتھ دوڑتی ہیں اور تو کناروں کے بیچ اُچھل اُچھل کر ان کی یوں رہنمائی کرتا ہے جیسے کوئی سیتا پتی یا راجا‘جنگ کرنے کے لیے یلغار کرتا ہو۔
ہمیشہ رواں دواں سفید جھاگ اڑاتے شفاف چمکتے پانیوں والےسندھو دریا !تیرا بہاﺅ سرکش اور کرشماتی گھوڑوں کی طرح تیزوتند ہے اور تیرا روپ ایسا ہے جیسے کوئی خوش جمال حسینہ۔
جل دیوتا ‘ تیرے شایان شان استقبال کے لیے سات سات ندیوں کو تیری پیشوائی میں حاضر رکھتا ہے کہ تو ایک عالم کو سیراب کرتا رہے ‘
سندھو !تو عمدہ اور پُر وقار گھوڑوں والی رتھ پر خوش خرامی کے ساتھ بہے چلا جاتا ہے ۔
tہم اس عالی شان رتھ والے سندھو کا جُگ جُگ خیر مقدم کرتے ہیں۔
”آشوب سندھ اور اردو فکشن“ کے فوراُ بعد لگ بھگ سولہ سو صفحات پر مشتمل سید مظہر جمیل کی ایک اور شاندار کتاب ” جدید سندھی ادب۔ میلانات‘رجحانات‘امکانات“ پڑھ کر اٹھاتو دریائے سندھ کا وہ منظر جو رگ وید میں دکھایا گیا تھا‘ میری نظروں میں سمایا ہوا تھا ‘ بس فرق تھا تو اتنا کہ سات سرکش ندیوں کی جگہ ان پندرہ ابواب نے لے لی تھی جنہوں نے سندھ کے پانیوں سے سیراب ہوتی مٹی کی مہک کو اپنے اندر سمولیا ہے ‘ اور وہ بھی صاحب یوں کہ اس کا قاری نہ صرف اس دھرتی پر بنتی بگڑی زندگی ‘ تہذیبی ہماہمی اور سماجی شعور کی تاریخ سے اگاہ ہوتا ہے وہ سندھی زبان و ادب کے ضمیر ‘ معنیاتی نظام اور جمالیاتی دھاروں کے مقابل بھی ہو جاتا ہے ۔
”آشوب سندھ اور اردو فکشن“ میں مظہر جمیل نے اردو فکشن کے ذریعے سیاسی ‘تہذیبی اور سماجی زندگی کو دیکھنے کاچلن اختیار کیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ وہ تخلیقات کے تجزیے بھی کرتے چلے گئے اردو فکشن کے ساتھ تخلیقات کی تفہیم کے اس قرینے نے اسے ایک اہم تنقیدی حوالہ بنا دیا تھا ۔ جدید سندھی ادب کی تاریخ لکھتے ہوئے بھی یہی پیمانہ مظہر جمیل کے پیش نظر رہا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ میں اسے صرف سندھی ادب کی تاریخ نہیں سمجھتا اسے تنقید کی نہایت اہم کتاب بھی گردانتا ہوں ۔
کتاب کے پہلے دوابواب میں سندھ کا معاشرتی‘ تہذیبی اور تاریخی تناظر مفصل بیان ہواہے ۔ اس کتاب میں وادی مہران کی صدیوں پر پھیلی تاریخ کے بیان کا مقصد مصنف نے کتاب کی ابتدائی سطور میں ہی واضع کر دیا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ :
”ہر دور کاادب معاصرانہ زندگی ‘ معاشرتی عوامل‘ انسانی گروہوں اور قبائل کے سماجی تفاعل ‘ اجتماعی خوابوں ‘ امنگوں‘ فتوحات اور محرومیوں کا نہ صرف حساس ترجمان اور صورت گر ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی سطح پر سماجی سرگرمیوں کا فعال حصہ بن جاتا ہے “
اس ایقان نے مظہر جمیل کو حوصلہ دیا ہے کہ وہ زبان کے بھید بھنوروں میں الجھ کر رہ جائے اور متن کی ساخت سے آگے بڑھ کر اس کے اندر رواں اس روح تک بھی پہنچ پائے جوفی الاصل اس کی تشکیل کامحرک رہا ہے ۔ وادی سندھ کے تہذیبی عناصر اور تاریخی تسلسل میں دیکھنے کے بعدوہ تیسرے باب میں سندھی زبان ‘ رسم الخط‘ اور لغت سازی کا احاطہ کرتے ہیں ۔ اس باب میں سندھی زبان کی تشکیل کے حوالے سے ان دونوں گروہوں کے نقطہ نظر پر بحث کی گئی جن میں سے ایک سندھی زبان کو خالص سنسکرت سے جوڑتا ہے جبکہ دوسرا آریاﺅں کی قدیم زبانوں کے شجرے میں شامل کرتے ہوئے ‘اسے پراکرت کی بیٹی اور سنسکرت کی نواسی کہتا ہے ۔ اس باب میں پروفیسر لیلو رچمندانی کا یہ کہنا بھی جگہ پا گیا ہے کہ سندھی زبان تو صدیوں سے اپنی اصل صورت میں موجود رہی ہے ۔مصنف نے بتایا ہے کہ سندھی ادب میں بیش تر تصنیف و تالیف کا کام ’وچولی ‘بولی میں ہوا ہے اس لیے وچولی بولی کے لہجے کی چھاپ پورے سندھی ادب پر گہری نظر آتی ہے۔
زبان کی تشکیل کی بحث کے بعد وہ زبانی شعری روایت سے لوک ورثے ‘ عوامی گیتوں ‘ رومانی داستانوں اور قدیم اصناف کے تذکرے تک آتے ہیں اس باب گاہ‘وھیڑہ“سورٹھے‘سٹھے‘رزم نامے‘ نسب نامے‘ گنان‘ھمرچو‘ ہو جمالو‘ ڈھولو ‘ چھلوبیت‘لوریوں اور سنبارو جیسی لوک شاعری کا تذکرہ ہوتا ہے۔ وہ ابیات‘ کافی وائی گیت اور دوہے کے باب میں قابل قدرمعلومات فراہم کرنے کے بعد سندھی زبان کے اس شاعر تک پہنچتے ہیں جس کا احوال سندھ کی ادبی تاریخ میں ذرا تفصیل سے ملتا ہے ۔ میری مراد قاضی قاضن سے ہے جسے قاضی قاون بھی لکھا جاتا ہے ۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے جد امجد شاہ کریم بلڑی والے کے چورانے ابیات کی تفصیل بھی بہم کی گئی ہے۔ شاہ کریم بلڑی والے ‘جن کا زمانہ ارغونوں کا زمانہ بنتا ہے ‘نے شاہ عبداللطیف پر شاعری کا راستہ آسان کیا اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدا ر کیا تھا۔ شاہ عبدا للطیف بھٹائی کے حوالے سے جو معلومات اس کتاب میں ہیں وہ بجا طور پر ایک مستقل تصنیف کے لیے مواد م کے لیے کافی ہیں۔ علی نواز وفائی نے یہ جو کہا تھا”لطیف سند آ’ ائیں سند لطیف آ‘ یعنی لطیف سندھ ہے اور سندھ لطیف ۔ تو بجا کہا تھا کہ سندھی زبان وادب اور روحانیات کے علاقے مےں سب سے زیادہ اور سب سے گہرے اثرات شاہ عبداللطیف بھٹائی کے ہیں۔شاہ صاحب کا زمانہ وہی بنتا ہے جب مغلوں کی مرکزی حکومت کمزور پڑ نے کے بعد سندھ میں ختم ہی ہو گئی تھی ۔ یہاں کلہوڑہ خاندان اقتدار میں تھا اور پورا سندھ ایک جامد معاشرے کانقشہ پیش کرتا تھا۔ شاہ لطیف ایسے زمانے میں اپنی شخصیت اور اپنے کلام سے ایسا جادو جگاتے ہیں کہ سینوں کو منور کرتے چلے جاتے ہیں ۔ سچل سرمست اور شاہ عنایت شہید جھوک والے کے صوفیانہ کا کلام کا تذکرہ ہو یا بھائی چَین رائے لُنڈ سامی کی ویدانتی شاعری کا‘اس کتاب میں نہ صرف قابل قدر معلومات فراہم کی گئی ہیں ان کے کلام کی روح اور اسلوب سے بھی اگاہ کیا گیا ہے ۔اس باب میں قادر بیدل بخش‘ میر عبد الحسین سانگی اور سید ثابت علی شاہ کے نام سے الگ الگ عنوانات کے تحت جدید سندھی ادب کی بنیادوں کو تلاشا گیا ہے۔
فاضل مصنف پانچویں باب سے جدید سندھی ادب کی طرف متوجہ ہوا ۔ سندھی ادب کی رفتار اور رجحانات کوقریب سے جاننے کے لیے اسے چار ادوار میں تقسم کیا گیا۔ عبوری دور ۰۰۷۱ ءمیں شروع ہوتا ہے ۳۵۸۱ءتک چلتا ہے ‘عہد تاسیس ۳۵۸۱ ءسے ۰۰۹۱ءکے زمانے کو قرار دیا گیا ‘ عہد تعمیر کا دورانیہ ۰۰۹۱ سے ۷۴۹۱ یعنی قیام پاکستان تک کا زمانہ ٹھہرا جب کہ عہد جدید قیام پاکستان کے بعد کازمانہ ۔ عبوری اور تاسیسی ادوار کے سندھی ادب کی نمایاں خصوصیات کے مفصل بیان کے بعد عہد تعمیر کے لیے چھٹے اور ساتویںباب میں تخلیق کاروں کے ناموں کے عنوانات قائم کرکے اس عہد کی بھرپور ادبی تاریخ اور تجزیوں کے علاوہ نمونہ ہائے کلام کے اردو تراجم سے اس کتاب کو اس عہد کا آئینہ بنا دیا گیا ۔ اسی باب میں مصنف نے بتایا ہے کہ سندھی نثرکی نئی نئی اصناف اسی زمانے میں سامنے آئیں اور اس کا سبب دوسری زبانوں کے سندھی میں تراجم کو قرار دیا گیا ۔ طبع زاد ناول نگاری‘ ڈراما نگاری‘ یادداشتیں اور سفر نامے لکھنے کا رجحان چلا نکلا اور بہت مقبول ہوا۔ مظہر جمیل نے بتایا ہے کہ مختصر کہانی اور افسانے کی صنف بھی اس عہد میں پیدا ہوئی اور پھر بڑی تیزی سے پھلی پھولی۔ ناول نگاری‘ ڈرامانگاری‘ ناٹک‘ اور افسانے کے الگ الگ عنوانات کے تحت اس عہد میں شائع ہونے والی تصانیف کا بھر پور تذکرہ اس حصے میں جگہ پا گیا ہے۔ مرزا قلیچ بیگ کے اثرات قبول کرکے شروع ہونے والے عہد تعمیر کے جن منتخب نثر نگاروں کے مفصل احوال بیان ہوئے ہیں ان میں ڈاکٹر ھوت چند مول چند گر بخشانی‘ حکیم فتح محمد سیوھانی‘ ‘ جیٹھ مل پرس رام گل راجانی‘ کاکوبھیرومل آڈوانی‘ لعل چند امر ڈنو مل جگتیانی ‘ خلیق مورانی‘ صدیق مسافر‘ محمد صدیق میمن‘مرزا نادر بیگ‘ علامہ عمر بن محمد داﺅد پوتہ‘ نارائن داس میورام بھنبھانی‘ صاحب سنگھ چندا سنگھ شاہانی‘ میلا رام منگت واسوانی‘ عثمان علی انصاری‘ محمد دین وفائی‘ آسانند مامتورا‘ امر لعل ھنگورانی‘ محمد عثمان ڈیپلانی‘ عطا حسین شاہ موسوی‘عبدالحسین شاہ موسوی اور محمد اسماعیل عرسانی شامل ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد کے عہد کو فاضل مصنف نے رجحانات و میلانات کے سیل رواں کا زمانہ قرار دیا گیا ہے اوریہی وہ عرصہ ہے جسے جدید سندھی ادب کا دورانیہ کہا گیا ہے ۔ تاہم جدید سندھی ادب پر بات کرنے سے پہلے سندھ کے تہذیبی تناظر میں ہوچکے کام اور اس کے اثرات کو گہرائی سے جانچتے ہوئے ان زیریں محرکات کوبھی تلاش کیا گیا جو نئے ادب کی نمو کا باعث اور جواز ہوئے ۔ مصنف کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے آس پاس اور اس کے بعد سندھی شاعری کا نیا لب ولہجہ بننے لگا تھا۔ نئے موضوعات‘ مسائل اور انداز شاعرانہ اظہار پانے لگے تھے۔ اس مدت میں افسانہ ناول اور ڈرامہ میں نئے نئے تجربات ہوئے جس نے سندھی ادب کو ثروت مند کر دیا۔ قیام پاکستان کے بعد فوری طور پر سامنے آنے والی نسل میں نمایاں ترین نام شیخ ایاز کا تھا ‘ لہذا شیخ ایاز کی شاعری اور نثر کااس کتاب میں بھر پور احاطہ ملتا ہے ۔ تقسیم کے آس پاس جو لوگ لکھ رہے تھے ان میں شیخ عبدالرزاق سے لے کر میراں محمد شاہ ‘ محمد ہاشم مخلص‘ حاجی محمود خان اور برکت علی آزاد تک بیسیوں اہم لوگوں کے کام سے اسی حصے میں تعارف ہوتا ہے اور پھر اس کارواں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔ جیسے مخدوم طالب المولی‘ نیاز ہمایوں ‘ ایاز قادری جمال ابڑو‘ شمشیر الحیدری‘ تنویر عباسی جیسے اہم تخلیق کارہوںیا۵۵۹۱ سے ستر کے عرصے اور پھر بعدازاں اپنا مقام بنانے والی نسل ‘چاہے ان میں ترقی پسند تھے یا قومیت پرست ‘ روایت کے ساتھ خلوص سے جڑے ہوئے لو گ تھے یا جدیدیت پسنداور تخلیقی عمل کو تمام وقتی رویوں اور ہنگامی رجحانات سے الگ رکھنے والے تخلیق کار ‘تمام کا تذکرہ ان کے تخلیقی رویوں کے ساتھ اس کتاب کا حصہ ہو گیا ہے ۔جدید سندھی شاعری کے کیا خدوخال نکلے اور وہ کون سے موضوعات تھے جو اسے مرغوب رہے اس کتاب کے ذریعے اس سب کا مطالعہ بہت اہم ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں سندھی زبان میں سرحد کے پار کیا ہوا اور کیا کچھ لکھا جارہا وہ بھی اس کتاب کے قاری کے لیے بہم کر دیا گیا ہے۔
یہیں مجھے سندھی فکشن کا تذکرہ کرنا ہے جس کا مطالعہ میرے لیے بہت دلچسپی لیے ہوئے تھا۔ سندھی فکشن کا یہ تذکرہ کتاب کے ابتدائی صفحات سے شروع ہوکر باقی اصناف کے ساتھ ساتھ آخر تک چلتا ہے۔ سومروں کے زمانے کے روایتی قصے کہانیاں اور عشق ومحبت کی داستانیں ہوں یاپھر مرہٹی ‘ بنگالی ‘اردو ‘انگریزی اور دیگر زبانوں سے سندھی میں فکشن کے تراجم کا ارتقائی دور یا پھر نئی طبع زاد کہانی کا جدید زمانہ ‘کوئی بھی ایسا گوشہ نہیں رہ جاتا جسے اس کتاب کے مرتب نے ان چھوا چھوڑ دیا ہو۔ یوں یہ کتاب سندھی فکشن کی ایک مستند تاریخ بھی ہو گئی ہے۔ میں فکشن کے ایک طالب علم کی حیثیت سے سمجھتا ہوں کہ سندھی ادب کے ساتھ ساتھ اردو والوں کے لیے بھی یہ ایسا اہم کام ہے جس کے اردو فکشن پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ سندھی فکشن میرے لیے حیرت کا ایسا دریچہ ثابت ہوا ہے جو اس کتاب میں درنیم کی طرح کھل گیا ہے ‘ یوں تجسس کی وہ صورت پیدا ہو گئی ہے جس کے زیر اثر سندھی فکشن کو مزید توجہ سے پڑھا جائے گااور وہاں کے آدمی کی حسیات کو بھی اردو کے مجموعی مزاج کا حصہ بنا لیا جائے گا ۔
سید مظہر جمیل نے سندھی افسانے کے پہلے دور میں مرزا قلیچ بیگ کو بہت اہم گردانا ہے جس کے قصوں اور کہانیوں جیسے مضامین نے افسانے کے لیے فضا تیا ر کی۔ سندھی افسانے کے سامنے بھی اردو افسانے کی طرح درآمدہ شارٹ اسٹوری کا ماڈل تھا ۔ اس کے تشکیلی دور میں جہاں موپساں‘ چیخوف‘ گورکی‘ اوہنری‘ ہیمنگ وے‘ ٹالسٹائی‘ خلیل جبران ‘ ٹیگور وغیرہ کے سندھی میں تراجم ہوئے وہیں بعد میں پریم چند‘ کرشن چندر‘ منٹو‘ خواجہ احمد عباس‘ عصمت چغتائی ‘ راجندر سنگھ بیدی کو بھی ترجمہ کیا گیااور اس کے اثرات سندھی فکشن نے قبول کئے۔ سندھی افسانے میں سماجی حقیقت نگاری کادور ۰۳۹۱ سے شروع ہوتا ہے۲۴۹۱ میں ترقی پسند افسانوں کا پہلا مجموعہ ”سرد آہوں (گوبند پنجابی) کے نام سے منظر عام پر آیا جس میں غریب عوام مزدور طبقے اور کسانوں کے مسائل کو افسانوں کا موضوع بنایا گیا تھا ۔ یہیں شیخ ایاز کی کہانیوں کے۶۴۹۱ءمیں شائع ہونے والے مجموعے ”سفید وحشی“ کا ذکر بطور خاص کرنا چاہوں گا جو اسی عنون سے کتاب میں شامل ہوا اور جو کتاب کی ضبطی کی وجہ ٹھہرا ۔ مظہر جمیل نے شیخ ایاز کے اس مجموعے کو سندھی افسانوں کا ایسا پہلا مجموعہ قرار دیا ہے جسے باغیانہ قرار دے کر پابندی لگائی گئی۔ مظر جمیل کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان تک سندھی افسانہ کم و بیش نصف صدی کی مسافت طے کر چکا تھا ۔
سندھی افسانے کے جدید عہد کا ابتدائی مزاج حقیقت نگاری کی صورت میں متعین ہوتا ہے جس میں رفتہ رفتہ ترقی پسندانہ سوچ اور مزاحمتی رویہ نمایاں ہوتا چلا گیا ۔ سندھی افسانے کا ہیرو وہی غریب ‘ مفلس ‘ بے چارگی کا مارا ہوا اور آگ میں تپا ہوا ہاری اور کسان ہے جو صدیوں سے زمین کا سینہ چیر کر رزق کا ڈھیر لگاتا چلا آتا ہے۔ سندھی فکشن کا دوسرا اہم کردار جسے مظہر جمیل نے شناخت کیا وہ وہاں کا وڈیرا ‘جاگیردار ہے جو اپنی خونی انگلیوں سے فطرت کے پیدا کئے ہوئے وسائل کو غاصبانہ انداز میں نوچ نوچ کر کھا رہا ہے ۔ شرافت اور نیکی کے روپ میں مکروہ کرداروں اور اپنے مطلب کے لیے ظلم کے جانب دار بن جانے والے سندھی فکشن کا تیسرا اہم کردار ہو گیا ہے ۔اسی طرح غریب الدیار سفید پوش بابو‘ اسکولوں میں پڑھانے والے مدرس‘ کالجوں میں پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیاں اور اپنے اپنے مردوں کے ساتھ وفا کے رشتے کے ساتھ بندھی ہوئی عورتیں سندھی فکشن کے اہم کرداروں کی صورت میں روپ بدل بدل ظاہر ہوتے ہیں۔ سندھی کی تہذیبی روایت ‘ دیہی زندگی اور معاشرہ سندھی کہانی کا منظر نامہ بناتے ہیں جبکہ سندھی قومیت کی بازیافت‘ مزاحمت‘ اور احتجاج سندھی کہانیوں کا ایک نمایاں موضوع ہے ۔ سید مظہر جمیل نے اس باب میں امر جلیل ‘نجم عباسی ‘ غلام ربانی آگرو‘ عبد القادر جونیجو ‘سراج میمن‘ ایاز قادری‘ رشید بھٹی‘ حفیظ شیخ‘ بشیر موریانی‘ رشید اخوند‘ ابن حیات پنھور ‘ رسول بخش پلیجو وغیرہ کی کہانیوں سے مثالیں دے کر اپنا مقدمہ قائم کیا ہے۔
آگے چل کر جدید افسانے کے بنیاد گزاروں میں جمال ابڑو‘ شیخ ابراہیم خلیل ‘ لطف اللہ بدوی‘ حمید سندھی‘ مقبول صدیقی ‘ مراز مراد علی ‘ علی احمد بروہی‘ جمال رند اور خواجہ سلیم وغیرہ کا تذکرہ آتا ہے ۔ سندھی افسانے پر نئے نئے میلانات کے در وا کرنے والوں کی ذیل میں مظہر جمیل نے مذکورہ افسانہ نگاروں کے علاوہ آغا سلیم‘منیر احمد مانک چاندیو‘ مہتاب محبوب‘ امر جلیل‘نسیم کھرل ‘ رسول میمن ‘ غلام نبی مغل‘ طارق اشرف‘ عبدالحق عالمانی‘ بیدل مسرور‘ نور عباسی‘ زیب بھٹی اور نور الہدی شاہ کا بھر پور ذکر کیا ہے۔ یوں دیکھیں تو جدیدسندھی ا فسانے کے تین ادوار بنتے ہیں ۷۴۹۱ سے ۰۶۹۱ کا زمانہ ‘ جس میں تخلیقی جوش ہر کہیں ابلتا ہوا محسوس ہوتا تھا اور جس میں سینکڑوں کی تعداد میں افسانوں کے مجموعے شائع ہوئے ۔ ۰۶۹۱ سے ۵۷۹۱ کا زمانہ ‘ سندھی افسانے میں رجحانات کی تبدیلیوں کا زمانہ ہے ۔ جب کہ بعد کے زمانے میں ذات کائنات میں تحلیل ہوگئی ہے اور کائنات ذات کے اندر سماتی ہوئی محسوس ہوتی ہے
غرض شاعری ہو یا افسانہ ‘ ناول ہو یا سوانحی ادب اور دوسری اصناف سندھی زبان ہو یا سندھی تہذیب کی کروٹیں سب کچھ اس کتاب ایک سلیقے سے حصہ ہوگیا ہے ۔ صاحب‘ جب سید مظہر جمیل کی کتاب”آشوب سندھ اور اردو فکشن‘ ‘ آئی تھی تو میں پہلی بار مصنف کی طرف متوجہ ہوا تھا ‘ اور حیران ہوا تھا کہ یہ شخص کہاں چھپا رہا ‘ اتنی محنت اور اپنے کام کے ساتھ اتنا بے پناہ خلوص اس نئے زمانے میں اس نے کیسے افورڈ کر لیا ۔ اب” جدید سندھی ادب“ کی اس ضخیم اور معتبر تاریخ کو دیکھ کر حیرتیںایک بار پھر مجھ پر ٹوٹ برسی ہے کہ اتنا اہم کام اس نے تن تنہا کیسے کر لیا ایسے کام تو اداروں کے کرنے کے ہوتے ہیں ۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سندھی ادب کے حوالے سے یہ کتاب آئندہ بنیادی مآخد کے طور پر استعمال ہوگی کہ سندھی ادب کے حوالے سے اس سطح کا کام قبل ازیں اردو کیا خود سندھی زبان میں بھی نہیں ہوا ۔اب اگر فہمیدہ ریاض نے یہ کہا ہے کہ سید مظہر جمیل کو اس پر پی ایچ ڈی کی ڈگری ملنی چاہیے تو یہ مطالبہ قطعا بے جا بھی نہیں ہے۔
٭٭٭


No comments:

Post a Comment