Saturday, March 28, 2009

بشیر مرزا اور آزر زوبی

دو مصور: بشیر مرزا اور آزر زوبی

محمد حمید شاہد


شخصیت نگاری‘ یاد نگاری حتی کہ خاکہ نگاری میں جو روش چل نکلی ہے اس میں غنیمت جانیئے کہ جس پر طبع آزمائی ہو رہی ہوتی ہے اُس کا اصل خال وخدبھی سامنے آجائےں ۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ شخصیت چاہے بھلے سے شیر جیسی ہو‘ قاری کو آخر میں مصنف یوںنظر آنے لگتا ہے جیسے اس نے مردہ شیر کی لاش پر پاﺅں دھرکے اور مونچھوں کو تاﺅدیتے ہوئے تصویر کھینچوالی ہو۔ ایسی تصویروں کی کیا وقعت ہوتی ہے کون نہیں جانتا۔ شفیع عقیل ‘بشیر مرزا اور آزر زوبی نے حوالے سے اپنی یادداشتیں لکھتے ہوئے اس غیر صحت مند رویئے سے بچ نکلے ہیں اور اس کا نتیجہ یوں خوش گوار ہو گیا ہے کہ دونوں مصور اور خود مصنف بھی زندہ بچ گئے ہیں ۔ بشیر مرزا اور آزر ذوبی اپنی زندگی کے بھر پور پن کی تفاصیل کے ساتھ اور شفیع عقیل اپنے سادہ رواں اور بھید بھرے اسلوب کی وجہ سے ۔ ہم مصوروں کی زندگیوں کے بارے میں بھی قیاس ان کی بنائی ہوئی تصویروں سے لگانے کے عادی ہو جاتے ہیں یا پھر ان تحریروں سے انہیں جاننے کو مجبور ہوتے ہیں جو قلم کے ماہرین اپنی مہارت کے زور پر لکھ لیا کرتے ہیں۔ ایسی تحریریں پڑھنے میں بھلی زور لگتی ہیں مگر لکھنے والا چوں کہ ان کے فن کی جمالیاتی سطح پر تحسین کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا لہذا اپنے قاری کواس باب میں کچھ دئےے بنا تمام ہو جاتی ہیں۔ ”دو مصور“ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہ صرف دو مصوروں کی زندگی کی فن کارانہ تصویریں نہیں ہیں ان میں غیر محسوس انداز میں ہی سہی جا بجا ان کے کام کا فنی مطالعہ در آیا ہے جس نے اس کتاب کی وقعت دو چند کر دی ہے ۔ اپنی بات کی وضاحت آذر زوبی کے حوالے سے لکھے گئے اقتباس سے کرنا چاہوں گا ۔ آخری ایام میں آذر زوبی نے بڑے سائز کی ڈرائینگز کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا ان کی بابت شفیع عقیل لکھتے ہیں : ” یہ ڈرائینگیں یا اسکیچ بے لباس انداز کے تھے جو زوبی کا پسندیدہ موضوع تھا ۔ وہ عورت کا بے لباس جسم بنانے میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لیتا تھا.... جو نیوڈ(nude) اسکیچ یا ڈرائینگیں بنا رہا تھا اور جس طرح کی بنا رہا تھا ان میں چار پانچ کا مزید اضافہ ہوجاتا تھا ۔ نہ موضوع میں کوئی تبدیلی ہوتی تھی ‘ نہ اشکال میں کوئی فرق آتا تھا ۔ نہ اجسام کے زاویے بدلتے تھے اور نہ خطوط میں کوئی تفریط ہوتی تھی۔ ایک عورت بیٹھی ہوتی تھی یا دو ہوتی تھیں اور چہروں کے خدوخال میں وہی یکسانیت ملتی تھی ۔ اس نے یہ ڈرائینگیں سو کے لگ بھگ بنائی تھیں ....“ایک اور جگہ لکھا ہے: ” تجریدی کام کرنے سے پہلے رئیلسٹک(realistic) میں مہارت ہونا ضروری ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اناٹمی(anatomy) سیکھنا بھی ضروری ہے الٹے سیدھے برش لگا دینے سے پینٹنگ نہیں بن جاتی“ایک مقام اور یہ بھی ذوبی کے حوالے سے : ” زوبی تجریدی آرٹ کے بہت خلاف تھا اور تجریدی کام کرنے والوں کو بے نقط سناتا رہتا تھا۔ اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ خود اس کے اپنے اپنے بعض فن پارے ایسے ہیں جو تجریدی یا نیم تجریدی انداز میں بنے ہوئے ہیں ۔اس کا وہ کام جو پین ورک میں ہے ‘ اس میں بہت سے اسکیچ اور ڈرائینگیں تجریدی(abstract) ہیں ۔ خاص طور پر اس کی وہ السٹریشنز جو اس نے بعض کتابو© ں میں بنائی ہیں- مثلاً” جنم کنڈلی“ ، ”سرخ فیتہ“ اور ” موت سے پہلے“ وغیرہ میں ۔ جب وہ تازہ تازہ اٹلی سے آیا تھا تو اس نے کئی اسکریپر ڈرائینگیں (scraper drawings ) بنائی تھیں -وہ سب تجریدی انداز کی ہیں جن میں سے بیشتر کو دیکھ کر مجسمے کا تصور اُبھرتا ہے “اسی طرح کا ایک حوالہ بشیر مرزا کے بارے میں: ” ....جب بی ایم نے ایکریلک سے فن پارے تخلیق کرنا شروع کئے تو اُس کی تخلیقی صلاحیتوں میں جیسے بھونچال آگیا ۔ اس نے لگاتار فن پارے بنائے اور پوری فن کارانہ مہارت سے بنائے ۔ اس نے زندگی میں کئی انداز کا کام کیا تھا اور ہر انداز میں اپنی انفرادیت تسلیم کروائی تھی لیکن جب اس نے ایکریلک کو اپنایا تو اس میڈیم میں ہونے والی تخلیقات نے اس کے پہلے والے کام کو بھلا دیا.... بی ایم نے زندگی کے آخری دس برس کے دوران صرف ایک ہی میڈیم میں کام کیا اور یہ تھا ایکریلک۔ اس میں اس نے بعض سیریز بھی بنائیں ‘ پورٹریٹ بھی تخلیق کیے اور پورے اجسام کے فن پارے بھی بنائے ....یہ اس کا بہترین کام ہے“ آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ ایک طرف بشیر مرزا اور آذر زوبی کی ذاتی زندگیوں کے بھر پورخاکے متشکل ہوتے چلے گئے ہیں اور بالکل غیر محسوس انداز میں ان کے فن پاروں کا جائزہ بھی لے لیا گیا ہے۔ لگ بھگ ساری ہی کتاب میں یہی قرینہ ملتا ہے ۔ مصور علی امام نے شفیع عقیل نے پاکستان میں آرٹ ‘ آرٹ کی تحریکوں اور آرٹسٹوں کی بابت کام کو کتابی صورت میں لانے کا جو مشورہ دیا تھا ”دومصور“پڑھنے کے بعد اس کی اہمیت کا ندازہ بھی ہوجاتا ہے ۔ اب تو ہم بھی ان کے موئید ہو گئے ہیں ‘ واقعی”آرٹ پر شفیع عقیل نے جو کام کیا ہے - وہ اپنی جگہ کمال کاکام ہے ۔“امید کی جانی چاہیے کہ”دومصور“ کے بعد بھی ان کا اس ضمن میں کام کتابی صورت میں سامنے آتارہے گااور یوں شاید علی امام کی اس شکایت کی سنگینی اور شدت کم ہونے کی ایک صورت نکل آئے کہ ” اردو قومی زبان ہے اور اس میں ایسی کتابوں کی بہت کمی ہے “۔ دو حصوں پر مشتمل ‘تین سو بیس صفحات والی اس کتاب کی پیش کش بھی خوب ہے ۔ متن کے اندر بشیر مرزا اور آذر زوبی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریروں کے عکس ہوں یا رنگین تصاویر کی صفحات اور سرورق ہر کہیں یہ سلیقہ جھلک دے جاتا ہے ۔ مصور زندگی بھر خوب صورتی کو گرفت میں لینے کے جتن کرتے رہتے ہیں ان کے بارے میں کتابوں کو بھی اتنا ہی خوب صورت ہونا چاہیئے۔

2 comments:

  1. I'm Rifat. I'm from Bangladesh. I don't read Arabic. But I saw your facebook profile. your profile picture is Nice and your profile is fine. I like your all profile pic. your photo blog I saw...Really Nice. Thanx

    Sincerely,
    rifat_181@yahoo.com

    ReplyDelete