Friday, March 6, 2009

غزل دشمن نظم گوستیہ پال آنند....آخری چٹان تک

غزل دشمن نظم گوستیہ پال آنند....آخری چٹان تک
محمد حمید شاہد

گوپی چند نارنگ کا کہنا ہے
” کون وقت کو جل دے سکتا ہے“
اور اسی سانس میں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ستیہ پال آنند کا معاملہ دوسرا ہے۔ دوسرے معاملے والے ستیہ پال آنند کے بارے میں گوپی چند نارنگ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”آنا“ فتح کرنا اور چھا جانا جیسے صرف ان پر جچتا ہے کسی دوسرے پر نہیں کچھ اور اطلاعات جو اسی وسیلے سے ملی ہیں وہ یوں ہیں۔
ادب سے ان کا رشتہ نصف صدی پرانا ہے۔
عمر ستر برس سے تجاوز کر چکی ہے۔
شروع شروع میں ہندی سے یاد اللہ تھی
پھر کافی برس درس و تدریس اور انگریزی ادب کی سیاحی میں گزرے
بارہ برس پہلے انہوں نے اردو ادب کی دنیا میں باقاعدہ قدم رکھا۔
یہ اطلاعات دینے کے بعد گوپی چند نارنگ نے جو لکھا وہ اس قدر دلچسپ ہے کہ ہو بہو نقل کرنے کو جی چاہتا ہے۔
”....انہوں نے اردو ادب کی دنیا میں قدم رکھا تو خود مجھے شک تھا کہ پختہ عمر کا یہ عشق کتنی مدت تک چل سکے گا انہوں نے تابڑ توڑ.... جس طرح مجموعے چھاپے اور بازی بدل بدل کر جس طرح اردو نظم کی کشت خشک کی آبیاری کی تو اس نے نہ صرف مجھ کو بلکہ بہتوں کو ششدر کر دیا.... لرزے ہے موج نے تری رفتار دیکھ کر“۔
ہمیں ستیہ پال آنند کا گزشتہ برس مجموعہ ملا تھا ”مستقبل‘ آمجھ سے مل“ اور کچھ ہی دن پہلے ایک مجموعہ ملا ہے....”آخری چٹان تک“.... واقعی ششدر کر دینے والی بات ہے۔
ڈاکٹر ستیہ پال آنند گزشتہ مختصر عرصے میں ‘ اس سے پہلے چار مجموعے دے دچکے ہیں ‘ دست برگ‘ وقت لا وقت‘ آنے والی سحر ‘ بند کھڑکی ہے ‘ اور لہو بولتا ہے۔ یوں نظموں کے مجموعوں کی تعداد چھ ہو جاتی ہے۔ اردو میں فکشن کے حوالے سے انہوں نے سات کتابیں د ی ہیں۔ انگریزی ہندی اور پنجابی میں متعدد کتب دینے کے بعد اردو میں یہ بھر پور تخلیقی سفر نہ صرف ان کی بے پناہ تخلیقی قوت کا پتہ دیتا ہے یہ امر بھی واضح کرتا ہے کہ وہ اردو میں ہی سہولت محسوس کرتے ہیں۔
اردو نظم کے موضوعات پر وہ بے پناہ تنوع لے کر آئے ہیں‘ عجب فنکارانہ تازگی ہے کہ آپ کو گرفت میں لے لیتی ہے اور نظم کہانی کی طرح اپنا آپ قاری پر کھولتی چلی جاتی ہے کہانی کا خارجی منظرنامہ عصری صورتحال سے جڑا ہوتا ہے جب کہ اندر کہیں روحوں سے مکالمہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس تجربے کے لئے جس لسانی لحن کو چنا ہے اس کے باعث وہ غزل کے رموز و علائم کے سائے سے بھی بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں....یہ راستہ ابھی پامال نہیں ہوا‘ لہذا نیا اور اجنبی سا لگتا ہے خصوصا وہاں جہاں لفظوں کے معلوم معانی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ایک تصویر بنتی ہے‘ بالکل نئے رنگوں سے مگر لطف یہ ہے کہ نقوش معلوم دیومالا‘ تاریخ‘ لوک کہانی یا پھر روایت کے ہوتے ہیں مگر نئے رنگ اسے بالکل مختلف کر دیتے ہیں۔ ان کا بنیادی شعری تنازع معلوم سے نامعلوم کی سمت جست ہے.... وہی نا معلوم جسے چھونا بھر پور شعری تجربے ہی سے ممکن تھا۔
ڈاکٹر ستیہ پال آنند اپنے اس بھر پور تخلیقی تجربے کے ساتھ ساتھ غزل کے انہدام کا بیڑا بھی اٹھائے ہوئے ہیں جب بھی اور جہاں بھی موقع ملتا ہے اس پر خوب برستے ہیں۔ دو تین برس پہلے جب اپنی جنم بھوی کورٹ سارنگ‘ تحصیل تلہ گنگ ضلع چکوال آئے تھے تو راولپنڈی‘ اسلام آباد‘ پشاور‘ لاہور اور کراچی میں منعقد ہونے والے ادیبوں کے متعدد اجتماعات میں اس موضوع پر خوب خوب بولے تھے۔ بہت دھول اڑی تھی۔ جوانہوں نے کہنا تھا کہہ کر امریکہ پلٹ گئے تھے۔ مگر باز گشت آج تک سنائی دے رہی ہے۔ ”مستقبل آمجھ سے مل“ میں یہی معاملہ یوں اٹھایا گیا ہے کہ انہوں نے وہ مضمون جو ”اپنی ششٹی پورہ سماردہ“ یعنی ساٹھ برس پورے ہو چکنے پر پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ بھارت میں منعقدہ تقریب میں پڑھا تھا‘ کتاب کا دیباچہ بنا دیا ہے۔ غزل کو روندتا ہوایہ مضمون اگر چہ ان کے نقطہ نظر کی بھر پور وضاحت کرتا ہے مگر اس تخلیقی تجربے سے متعارف ہونے سے پہلے ہی فردا میں الجھا دیتا ہے جس میں بے پناہ وسعت‘ تازگی اور تنوع ہے۔ ”آخری چٹان تک“ میں کوئی دیباچہ نہیں ہے یوں آپ برا ہ راست نظموں سے ملاقات کرتے ہیں۔ اس کتاب کی بعض نظموں کے عنوانات ہی پوری نظم کا سا لطف دے جاتے ہیں۔
سچ تو سانپ ہے.... تصویریں کب عمر رسیدہ لگتی ہیں.... وقت کی دیمک چاٹ گئی ہے.... ساری کتاب پڑھنے کے لائق ہے۔ افتخار امام صدیقی نے بجا طورپر کہا کہ” یہ تمام نظمیں اردو کی جدید نظمیہ شاعری کو ایک نیا شعری وجدان دے سکتی ہیں“۔
غزل کے انہدام اور نئے شعری تجربے پر اصرار کے لئے ”آخری چٹان تک“ میں ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے نظم ہی کا وسیلہ چنا ہے۔ وقت مسافر (Time Traveller) سے مکالمہ اسی سلسلے کی نظمیں آپ کی نذر کرتا ہوں۔
پہلی نظم ہے“غزلوں کی چیونگم اور کاکروچ“....
”مستقبل میں شعروسخن کی کیا حالت تھی‘ مستقبل سے لوٹ کر آنے والے‘”وقت مسافر“ سے جب یہ پوچھا‘ تو‘ وہ کچھ جھینیا اور پھر بولا‘ قدم قدم اکڑوں چلنا‘ پھر لفظوں کو چیونٹوں کی طرح پکڑ کر‘ شعروں میں بھر لینا‘ کالی دال میں کالے کنکرچننے کے مترادف ہے تو‘ لیکن بھائی‘ اردو میں پچھلی صدیوں میں‘ شاید ایک کروڑ سے کچھ اوپر ہی غزلیں لکھی گئی ہوں گی، شاعر بےچارے ہر بار نئے موضوع کہاں سے ڈھونڈتے؟ تشبیہیں بھی بنی بنائی ڈھیروںغزلوں میں رکھی ہیں‘ کوئی وسیلہ باقی ہے تو صرف یہی ہے‘ اک دوجے سے چبی چبائی چنگم مانگو‘ اور پھر سوچو‘ اور پھر سوچو‘ اور پھر سوچو آج کا شاعر اور غزل کا رسیا مستقبل کا شاعر‘ دونوں چنگم سے چبکے بس کا کروچ ہیں!
”دیسی گڑ کی نظمیں“ اس سلسلے کی دوسری نظم ہے۔
”....وقت مسافر ‘ زور زور سے ہنسنے لگا‘ پھر پھوٹ پھوٹ کے رویا‘ تو‘ اک لمحہ ٹھہر کر میں نے پوچھا ‘ روتے کیوں ہو؟ بولا‘ میں نے آج سے دو صدیاں پہلے کی سیر بھی کی تھی‘ شاعر دو صدیاں پہلے کے‘ سب درباری‘ خلعت پوش‘ وظیفہ خوروں کے زمرے کے ‘ایک عجیب مخلوق تھے بھائی‘ قندپارس کے سب رسیا‘ فارس پر مرمٹنے والے‘ ملک عجم کو قبلہ مان کے‘ مشق سخن کرتے تھے سارے‘ اپنے وطن میں کیا کچھ تھا تب‘ اس کا کوئی خیال نہیں تھا‘ عرفی ‘ سعدی ‘ حافظ اور نظیری‘ نام کئی معراج سخن تھے‘ لیکن سب تھے ملک عجم کے ‘ ان کا ڈنکا ہی بجتا تھا‘ کیا نظیر نہیں تھا؟ میں نے اس سے پوچھا‘ اس اکبر آباد‘ آگرہ کے اودھی شاعر کا‘ آخر کیا رتبہ تھا‘ روتا اس لئے ہوں بھائی‘ اس بےچارے کو توجاہل‘ جان کے سب نے تھو تھو کی تھی‘ عید ملن ‘ ہولی‘ دیوالی‘ میلوں ٹھلیوں کا یہ شاعر‘ فارس کے گزماپ سے کیسے ماپا جاتا؟ ”ریچھ کا بچہ“‘”روٹی“‘ یا” بنجارہ نامہ“ لکھنے والا‘ ان کے من کو کیسے بھاتا؟‘ یہ نظمیں تو دیسی گڑ تھیں‘ قندپارس کے رسیا شاعر لوگوں نے ‘ ان نظموں کو دیسی سمجھا‘ روتا اسی لئے ہوں بھائی ‘ ہنستے کیوں ہو وقت مسافر؟ میں نے پوچھا‘ ہنسنے جکی اک وجہ مکرر یہ ہے بھائی‘ مستقبل میں اس اکبر آباد‘ آگرہ کی شاعر کی‘ کچھ ایسی پہچان بنی ہے‘ نئے نئے گوشوں پر اک درجن سے اوپر نئی کتابیں لکھی گئی ہیں‘ پچھلے‘ وقتوں کا یہ شاعر‘ مستقبل میں چوٹی کا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے‘ ہنستا اس لئے ہوں بھائی!
تیسری نظم (جو اس سلسلے کی آخری نظم بھی ہے) کا عنوان ہے”وقت کی دیمک چاٹ گئی ہے“۔
”شعر و ادب کی تاریخیں تو کافی لکھی گئی ہوں گی‘ تب؟ مستقبل سے لوٹ کے آنے والے سے جب یہ پوچھا تو وقت مسافر ہنس کر بولا ‘ ہاں‘ چھ سات تو لکھی گئی ہیں‘ کس کس کا چرچا ہے ان میں؟‘ آج کے جانے مانے شاعر تو سب ہوں گے؟ میں نے پوچھا‘ کچھ تو ہیں پر....‘وقت مسافر کچھ جھجکا‘ پھر ہنس کربولا‘ نام و نمود کے بھوکے‘ جھوٹے ‘ نقلی شاعر‘ القابوں کی خاطر اپنے فن کا سودا کرنے والے‘ بڑے بڑے عہدوں کے پیچھے بھاگنے والے ‘ حاکم وقت کی جھولی اٹھا کر چلنے والے‘ ردونفی کے وقت کے اس بے رحم عمل سے کیسے بچتے؟‘ ایسے ناشاعر جن کا بے حد چرچا ہے‘ جن کے نام کے طرے ہین‘ قومی اعزاز ملک کی جھالر ٹنگی ہوئی ہے کہ ان لوگوں کا شعر ادب کی تاریخوں میں نام نہیں ہے‘ ان کے نام کہاں ہیں آخر؟ میں نے پوچھا‘ ان صفحوں کو ‘ جن پر یہ سب لکھے تھے‘ وقت مسافر ہنس کر بولا وقت کی دیمک چاٹ گئی ہے“۔
یہ نظمیں آپ نے یہاں پڑھ لی ہیں.... ایک غزل دشمن شاعر کی براہ راست نظمیں مگر میری گزارش ہے کہ.... اگر آپ غزل سے محبت کرتے ہیں تو کتاب پڑھتے ہوئے ان نظموں کو قطعا نہ پڑھیں.... اگر آپ ایسا کر سکے تو آپ بھی ان کی دوسری نظموں سے بھر پور حظ اٹھائیں گے اور گوپی چند نارنگ کی ہم نوائی کرنے لگیں گے کہ ستیہ پال آنند کا معاملہ ہی دوسرا ہے
”سو ٹکڑوں کا ایک معمہ
ان ٹکڑوں کو احتیاط سے
سوچ سمجھ کر‘ جانچ بانچ کر
آپس میں پیوست کریں‘ تو
ستیہ پال آنند کی صورت
(خیروشر کا ایک مرقع)
ان سے شاید آشکارہو!“

No comments:

Post a Comment