Friday, March 6, 2009

فیض.... منہدم ہو جائیں گے؟

فیض.... منہدم ہو جائیں گے؟
محمد حمید شاہد

تیرہ فروری انیس سو گیارہ کو پیدا ہونے والے فیض احمد فیض کی روح اگر بیچ کے عرصے میں قفس عنصری سے پرواز نہ کر گئی ہوتی تو وہ خیر سے اب نوے برس کے ہوتے۔
اور عین ممکن ہے کہ کوئی ایک آدھ۔ م راشد ہی یہ لکھتا کہ ”فیض احمد فیض کی شاعری اور ذہن میں فکری تساہل نے ناگزیر عنصر کی شکل اختیار کر لی ہے۔ وہ کسی بھی مسئلے کے بارے میں گہرائی سے نہیں سوچ سکتے کہ ان میں تجزیہ کاری کی صلاحیت تقریبا مفقود ہے“۔
مگر بقول حمید نسیم اب تو یہ صورت ہو گئی ہے کہ ہر مبتدی فیض صاحب کی کلام کو تختہ مشق بنا رہا ہے۔ حمید نسیم کو اس وقت حیرت ہوتی تھی‘ جب ادبی محفلوں میں اور اخبارات و رسائل کے لئے نو بالغ اور نو مشق شاعر و ادیب فیض صاحب کی شاعری پر اعتماد و جوش کے ساتھ کج بخشی کرتے تھے مگر مجھے یکے بعد دیگر کئی ایسے مضامین دیکھ کر تشویش ہونے لگی ہے‘ جن میں فض کی بوسیدگی کی جانب بھر وپر اشارے کئے گئے ہیں۔
الہ آباد بھارت سے شائع ہونے والے شمس الرحمان فاروقی کے ادبی جریدے شب خون (شمارہ ۰۴۲) میں وہاب اشرفی ان لوگوں پر خوب برسے ہیں‘ جو فیض کو اپنے وقت میں ہی ایک لیجنڈ (Legend) کی حیثیت دینے لگے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا کہنے والے لچنڈ کی حقیقی تعریف سے واقف نہیں ہیں اور نہ ہی اس لفظ کی اہمیت ان پر واضح ہے۔ وہاب اشرفی کا یہ بھی کہنا ہے کہ فیض خود اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود ایسی خوش گمانی کے شریک نہیں تھے اور بعض معاصر غیر ملکی شعراءکے مقابلے میں خود کو خاصا کمتر ثابت کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا فیض کے اندر خود اعتمادی کی کمی تھی؟ ساتھ یوں ہی منہ کا ذائقہ بدلنے کو دوسرا سوال رکھ دیا ہے.... یا پھر ایسا کہنا ان کی خاکساری کے زمرے میں آئے گا“؟
وہاب اشرفی نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ انکساری فیض کی فطرت ثانیہ تھی ‘ اس امکان کو رد کر دیا ہے اور سارتر‘ یا بلونرودا‘ لورکا‘ ناظم حکمت رسول حمزہ اور الیمانوف جیسے شعرا و ادبا سے فیض کی ذہنی مرعوبیت کی داستان کے اپنے ان بیانات اور تحریروں سے برآمد کی ہے‘ جن تحریروں کو انہوں نے آخر کار عمومی ثابت کیا ہے۔ وہاب اشرفی کا کہنا ہے کہ فیض کی ان عمومی تحریروں سے کوئی ادبی نظریہ نہیں نکالا جا سکتا۔ یہاں مجھے وہاب اشرفی کی ایک اور بات خود انہی کے لفظوں میں دہرا لینے دیجئے۔ فرماتے ہیں ”مجھے بار بار احسات ہوتا ہے کہ فیض کے یہاں د و آوازیں ہیں‘ ایک آواز تو اس شاعر کی ہے‘ جو جذباتی زندگی گزارتا ہے‘ جس کے یہاں نغمگی اور غنایت ایک خاص عنصر بن کر ابھرتی ہے اور دوسری آواز فیض کی ہے‘ جو انقلاب کی لے اپناتا ہے لیکن یہ آواز مصنوعی اور اوپر سے تھوپی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کبھی کبھی ناخوشگوار حد تک تیز ہو جاتی ہے اور یہ فیض کا حقیقی رنگ نہیں ہے“۔
اسی شمارے کا دوسرا مضمون ظفر اقبال کا ہے ‘ جو اصرار کرتے ہیں کہ ہمیں فیض کی شاعری کو نئے سرے سے جانچنا اور پرکھنا چاہئے کیونکہ برق رفتاری سے بدلتے ہوئے اس زمانے میں شاعری کے تقاضے بدل رہے ہیں۔ ظفر اقبال بھی شاعری کے اس قاری پر برستے نظر آتے ہیں‘ جس کی سوئی فیض پر اٹکی ہوئی ہے اور فتوی صادر کرتے ہیں کہ فیض کی شہرت اور شاعری نے شاعری کے مستقبل اور قاری کا راستہ روک رکھا ہے۔
ظفر اقبال اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لئے شاعری کے بدلتے لحن اور ملبوسات کے فیشن کو ایک سا قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ....
”ملبوسات کی طرح شاعری کا پیرہن بھی تبدیل ہونا چاہئے‘
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ....
”اپنی تمام تر مقبولیت اور اہمیت کے باوجود فیض کی شاعری یک پرتی ہے۔ اس میں بلندی اور تفاع تو موجود (ہے) لیکن گہرائی مفقود ہے۔ دریافت کا عمل اور حیرت کا عنصر جو کہ حقیقی ‘ عمدہ اور اعلی شاعری کی شرط اول قرار پا چکا ہے‘ فیض نے اپنی شاعری کو شاید نادانستہ اس سے محروم رکھا ہے“۔
حتی کہ ظفر اقبال یہاں تک کہہ گزرتے ہیں کہ؟
”فیض اپنی تمام تر سنیارٹی کے باوجود احمد فراز‘ پروین شاکر اور امجد اسلام امجد جیسے پاپولر شاعروں کی صف میں خود بخود شامل ہوجاتے ہیں جہاں سستی رومانویت اور شاعری کی سرحدیں اکر آپس میں ملتی نہیں تو ایک دوسرے کے انتہائی قریب ضرور آجاتی ہیں“
”شب خون“ کا تیسرا مضمون شمیم حنفی کا تحریر کردہ ہے۔ یہ مضمون کراچی سے چھپنے والے مبین مرزا کے ”مکالہ“ ۴ میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ مضمون نگار نے اس مضمون میں ثابت کیا ہے کہ فیض کی شاعری اپنے قاری سے جو رشتہ قائم کرتی ہے ‘وہ فکر سے زیادہ احساس کا رشتہ ہے۔ یاد رہے شمیم حنفی اپنے مضمون کے آغاز میں یہ بھی لکھ چکے ہیں کہ صرف جذبے اور احساس کی مدد سے بالعموم بڑی شاعری کا تخلیقی تجربہ ممکن نہیں ہے ۔ لاہور سے شائع ہونے والے نصیر احمد ناصر کے ادبی جریدے ”تسطیر“ شمارہ ۳۱۔۴۱ میں اگرچہ رفیق سندیلوی نے وزیر آغا کی تنقید کے حوالے سے ایک مبسوط مقالہ لکھا ہے مگر وہ فیض کو یاد کرنا بھی نہیں بھولے.... لکھتے ہیں۔
”وزیر آغا نے فیض کی نظم کو انجماد کی ایک مثال قرار دیا ہے۔ وہ یوں کہ فیض نے اول اول رومان اور حقیقت کے ربط باہم کو فن کا رزنہ انداز میں دریافت کیا تھا مگر جلد ہی ایسا مقام آیا کہ فیض کی شاعری رومان اور حقیقت کے انضمام سے مزید دائرے نہ بنا سکی یعنی گھیراﺅ نہ ہو سکی اور چونکہ تخلیق بھی کلچر کی طرح نمو کی طالب ہوتی ہے اس لئے فیض کی شاعری نقطہ نظر کی قطعیت اور تشہیر کی تکراریت کے باعث منجمد ہو کر رہ گئی اور اس امتزاج سے محروم ہو گئی ‘ جو فن کا طرہ امتیاز ہوتا ہے“۔
یوں لگتا ہے فیض سے محبت رکھنے والے افتخار عارف اکیلے ان سب تیروں کے سامنے کھڑا ہونا چاہتے ہیں تبھی تو ۴۱ فروری کو اکادمی ادبیات کے زیر اہتمام آفتاب احمد خان کی صدارت میں فیض کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک عدد جلسے کا اہتمام کر دیا ہے۔ مگر اس کا کیا کیجئے کہ ظفر اقبال آفتاب احمد خان کو بھی نہیں مانتے.... وہ کہتے ہیں۔
”آفتاب احمد خان اتنے ٹھس اور دقیانوسی ہیں“ جیسے کہ یک پرتی شاعری کے نقاد کو ہونا چاہئے“
ایسے میں فیض کی شاعری سے براہ راست ”فیض کا کسب کمانے“ والے اپنے ”مربی“ کو منہدم ہونے سے بچانے کے لئے آگے بڑھتے ہیں یا نہیں‘ میں بار بار ان کی سمت دیکھ رہا ہوں۔
انہدام کی زد میں آئے اپنے محبوب کی مدد کو انہیں ضرور لپکنا چاہئے کہ ان پر فیض کے بہت احسانات ہیں۔
اتنے احسان کہ گنواﺅں تو گنوا نہ سکوں
اب اگر وہ بھی کہ جو ساری عمر اس مقبول شاعر کی مرغوب لفظیات‘ آہنگ اور شہرت پر ہاتھ صاف کر کے اسے عین اپنی صف میں گھسیٹ لائے ہیں‘ مدد کو آگے نہیں بڑھتے تو اس سے بڑا المیہ اردو ادب کی تاریخ میں اور کیا ہو گا۔
(روزنامہ پاکستان اسلام آباد 13 فروری 2001ئ)

No comments:

Post a Comment